قدرت کا فلسفہ آزمائش اور ہمارے لیے سبق

549

اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسانوں کو آزمائش میں مبتلا کیا ہے آدم ؑ کی تخلیق کے بعد ان کو جنت میں رکھا اور پھر ابلیس کے ذریعے ان کو آزمائش میں مبتلا کیا پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور دنیا میں اُتار دیا پھر ہر دور میں انبیاء کے ذریعے ان کی امتوں کی آزمائش جاری رہی، نوح ؑ کے ذریعے ان کی امت کی آزمائش ہوئی قوم نوح، نوح ؑ کا مذاق اُڑاتی رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان پر پانی کا عذاب مسلط کر دیا، قوم شعیب ؑ پر بھی آزامائش آئی جو ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور راستوں میں بیٹھ کر بے حیائی کرتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر دیا۔ قوم لوط ؑ پر آزمائش آئی کیونکہ وہ ہم جنس پرستی کرتے تھے اور بے حیائی میں انتہاء کر چکے تھے لوط ؑ ان کو بہت سمجھاتے لیکن وہ باز نہ آئے تو بالآخر اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر مسلط ہو ا اور پتھروں کی بارش کر دی گئی اور پوری قوم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے برباد ہوگئی، اسی طرح موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کو اللہ نے فرعون کی طرف بھیجا اور کہا کہ فرعون کو دعوت دیں اللہ نے موسیٰ ؑ کو معجزات بھی دیے لیکن فرعون ظالم اور طاغوت تھا جو اپنی طاقت کے نشہ میں دُھت تھا بچوں کو قتل کروا دیتا تھا اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا، موسیٰ ؑ نے فرعون اور پوری قوم کو سمجھایا لیکن وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو دریا بُرد کر دیا اور فرعون کو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا۔ نبی کریمؐ کی بعثت کے موقع پر عرب فکری اور عملی اور معاشی زوال کا شکار ہو چکے تھے ملک میں قانون کی عدم حکمرانی تھی، 100,100 سال تک قبائلی جنگیں چل رہی تھیں، عرب کا معاشی نظام سود پر چل رہا تھا، عرب اپنی جنگوں اور قبائلی نظام کی وجہ سے اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر لیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور گرد ونواح میں یہی ظلم چل رہا تھا نبیؐ اپنی قوم اور رشتہ داروں کو سمجھاتے رہے لیکن مکہ مکرمہ کے سردار اپنے ظلم سے باز نہ آئے بالآخر نبیؐ کی ہجرت کے بعد غزوہ بدر میں احد وخندق میں واصل جہنم ہوئے یا پھر فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کر کے مسلمان ہو گئے اور پھر عرب دنیا میں اسلام کی بہار شروع ہو گئی اور خلفاء راشدین کے دور میں اسلام نے عروج حاصل کیا۔

اللہ تعالیٰ ہمیشہ اقوام کو آزمائشوں میں ڈالتا ہے اس وجہ سے کہ جب اقوام نافرمان ہو جاتی ہیں، اپنے انبیاء اور مصلحین کو قتل کر دیتی ہیں ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ رکھتی ہیں قوم کے معززین کو رسوا کرتی ہیں اور ملک میں ایسے قوانین بناتی ہیں جو اللہ کے قوانین سے ٹکراتے ہیں اللہ تعالیٰ جواباً اقوام اور حکمرانوں کو پہلے ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اقوام اور ظالم حکمران اپنی حرکتوں سے باز آجائیں دوسرے نمبر پر اللہ ان اقوام کو آپس میں لڑا دیتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی قوت کو پاش پاش کر دیں، تیسرے نمبر پر بعض اوقات اللہ کسی دوسری قوم کو ان پر مسلط کر دیتا ہے تاکہ وہ ان کو عذاب دے اس طرح اللہ تعالیٰ اقوام کو سبق سکھا دیتا ہے۔ چوتھی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے تاکہ ان کو سبق سیکھائے اور پھر اگر کوئی قوم ان عذابوں کی وجہ سے سدھر جائے تو بہتر اور وہ اللہ کی طرف رجوع کر لیتی ہے وہ توبہ کرتی ہے، استغفار کرتی ہے اللہ کے سامنے گڑگڑاتی ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے پھر اللہ ان کے اوپر سے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ قوم کو زندہ رہنے کا ایک اور موقع عنایت فرما دیتا ہے لیکن اگر قوم اور اس کے مترفین اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ اس آزمائش کو عذاب کے اندر تبدیل کر دیتا ہے اور ایسی اقوام کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتا ہے جیسا کہ قوم نوح، قوم شعیب ، قوم لوط اور قوم ہود سب کو اللہ تعالیٰ نے مٹا دیا اور ان کی جگہ دوسری اقوام کو لے آیا۔

آج ایک طرف امت مسلمہ کی آزامائش ہے پوری دنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے فلسطین میں، کشمیر میں، برما میں ان تمام مقامات پر کفار مسلم بچوں اور خواتین کا قتل عام کر رہے ہیں جبکہ مسلم حکمران اور افواج بالکل خاموش ہیں وہ خوف کی وجہ سے کھل کر اسرائیل، امریکا اور ناٹو افواج کے مقابلہ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کو خوف ہے کہ اقوام متحدہ کی وجہ سے ان پر معاشی پابندیاں لگ جائیں گی۔ مسلم حکمران اس وقت مغرب کے آلٰہ کا ر بن چکے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کے اندر حالات بہت خراب ہو چکے ہیں پوری فضاء ظلم سے بھر گئی ہے، قومی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، قومی اداروں کی عزت و وقار ختم ہو چکا ہے، فوج، بیروکریسی، انتظامیہ اور عوام الناس باہم دست وگریباں ہیں، قومی اداروں میں آئین وقانون کی پاسداری ختم ہو چکی ہے، تمام ادارے اپنے حدود سے باہر نکل چکے ہیں اور ظلم اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں ہارے ہوئے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں اور جیتے ہوئے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں لیکن عدلیہ پر کتنا دباؤ ہے کہ وہ بھی آزاد انہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر اس دباؤ کا اظہار بھی کر دیا۔ اس ظالمانہ ماحول نے ہماری معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا ہے ملک میں سرکاری اداروں میں ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، مزدور اور ملازمین پریشانی کے عالم میں ہیں۔ پورے ملک میں 24کروڑ عوام پر مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، یہ مایوسی اور غم غزہ کے مسلمانوں کے قتل کی وجہ سے اور بڑھ گیا ہے کہ مسلم افواج اور حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ان تمام حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، سب سے پہلے رمضان المبارک کی ان آخری گھڑیوں میں اپنے ربّ کی طرف رجوع کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں اپنے ہاتھوں سے ظلم وتشدد کو بند کریں، توبہ واستغفار کریں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے یونس ؑ کی قوم کی توبہ قبول کی اور ان کو زندہ رہنے کا ایک اور موقع دیا۔ ہمیں اللہ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آنے والے عذاب سے ہمیں بچائے گا اور ہمیں ایک نئی زندگی ملے گی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہماری معیشت کو بھی بہتر کر دے گا، ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے کمر کس لینے کی ضرورت ہے جو جس درجہ میں جتنا بااثر ہے وہ اس درجہ میں فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کرے، جو اس ظلم کو ہاتھ سے روک سکتا ہے وہ ہاتھوں سے روکے (یعنی مسلم حکمران و افواج) جو ان کے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں وہ مظاہروں میں شرکت کریں، سوشل میڈیا پر آواز بلند کریں ظلم خواہ کسی بھی جگہ ہو کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی ملک میں ہو ظلم کو ظلم کہے اور حق کے ساتھ کھڑا ہو اور بولے کہ یہ ظلم ہے اور یہ حق ہے۔ اور آخری درجہ یہ ہے کہ امت اس ظلم کو دل سے بُرا جانے اسی کو ـ ’’ذلک اضعف الایمان‘‘ کہا گیا ہے کہ یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم فرمائے اور ہمیں حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔