امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کراچی میں مقامی پولیس کے بغیر جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر مقامی افراد کو پولیس میں بھرتی کیا جائے۔ حافظ نعیم کا مطالبہ نیا نہیں ہے جماعت اسلامی اس سلسلے میں کوششیں بھی کرتی رہی ہے اور اپنے بلدیاتی ادوار میں اس پر عمل کی پوری کوشش بھی کی ہے۔ کراچی شروع سے مقامی پولیس نہ ہونے کی مشکل کا شکار ہے۔ پہلے کراچی میں پنجاب اور سرحد کے لوگ پولیس میں ہوتے تھے تمام خفیہ اداروں میں میانوالی اور پنجاب کا غلبہ تھا۔ اس وقت بھی مقامی پولیس کے لیے آواز اٹھائی گئی تھی۔ یہ شدت ۱۹۸۰ کے عشرے میں ایم کیو ایم کے عروج کا سبب بنی جب اس نے غیر مقامی پولیس اور غیر مقامی لوگوں کے خلاف نفرت کا پرچار کیا تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا لیکن وہ اپنے ۳۵ سالہ دور اقتدار میں کراچی کے لوگوں کا یہ مسئلہ حل نہیں کراسکی اور اس دوران پیپلز پارٹی سے اقتدار اور ہر دھندے میں شراکت کرتے ہوئے شہر میں مقامی پولیس کے بجائے کے پی کے اور پنجاب کی جگہ اندرون سندھ سے لوگوں کی بھرتیاں کروانے پر راضی ہوگئے اب کراچی کا شاید ہی کوئی تھانہ ایسا ہو جہاں کوئی مقامی فرد ایس ایچ او ہے۔ یعنی پہلے پنجاب اور کے پی کے کا رونا تھا اب اندرون سندھ کے افسروں، جوانوں اور عملے کا رونا ہے۔ اس مسئلے کو جماعت اسلامی کے میئر افغانی کے دور میں خوش اسلوبی سے حل کیا گیا تھا کہ اس شخص کو مقامی تصور کیا جائے گا جس کی رہائش کراچی میں ہو اور تدفین بھی کراچی ہی میں ہو۔ اس کی زبان علاقہ کوئی بھی ہو یعنی ہر طرح سے اس کا جینا مرنا اس شہر میں ہو لیکن آج کل جو صورت حال ہے ایسی نہیں ہے۔ قانون کی خلاف ورزی الگ ہے کہ مقامی افراد کا کوٹا جس قدر ہے اس کا ایک فی صد بھی انہیں نہیں مل رہا ہے۔ اور اندرون سندھ سے جیالوں اور رشوت دے کر بھرتی ہونے والوں کو لا کر بھرتی کیا جارہا ہے۔ یہ ساری باتیں خلائی یا سنی سنائی نہیں ہیں بلکہ خود پولیس کے درجنوں افسر اور اہلکار سنگین جرائم میں ملوث نکلے ہیں ان کیخلاف کارروائیاں بھی کی گئی ہیں چونکہ نیچے سے اوپر تک ایک ہی زنجیر ہے اس لیے بہت سے معاملات تو دبا ہی دیے جاتے ہیں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ بھی یہی ہے کہ پولیس مقامی ہو یا غیر مقامی کم از کم پولیس تو ہو۔ مسئلہ یہی ہے کہ پولیس کو دیکھ کر عام آدمی میں احساس تحفظ نہیں ہوتا بلکہ خوفزدہ ہوجاتا ہے ایسے حالات میں محض مقامی پولیس نہیں پولیس اور ایماندار پولیس کا ہونا ضروری ہے اب تو ڈومیسائل بھی وہی لوگ بنارہے ہیں جب چاہیں جس کا جس تاریخ سے بنا دیں کاغذ تو پکا بن جائیگا اس دور میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پولیس افسروں اور اہلکاروں پر مشتمل پولیس ملازمین کی بی کمپنی یعنی بینڈ کمپنی بنائی گئی تھی جس میں ساڑھے تین سو سے زائد افسر شامل ہیں جو ایس ایچ او بن سکتے تھے یا تھے اور انہیں کسی بھی جگہ مقرر نہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ اس تعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کو کیا تحفے دیے گئے ہیں۔