خبر یہ ہے کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کچے کے ڈاکوؤں کو خود اور بچوں کو بھی آئی ٹی پروگرام میں شمولیت کی پیش کش کردی۔ ٹیسوری صاحب بہت دلچسپ ہمدرد اور ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ خودغرضی کے اس دور میں وہ ایک ایسے سرکاری عہدیدار ہیں جو قوم کے محروم طبقات کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ انہی محروم طبقات میں سے ایک ڈاکو طبقہ بھی ہے۔ ڈاکوؤں کے بھی دو تین دھڑے ہیں۔ ایک وہ جو کچے کے ڈاکو ہیں۔ یہ غریب جان جوکھم میں ڈال کر روزی کماتے ہیں۔ دوسرے دھڑے کو پکے کے ڈاکو کہا جاتا ہے۔ یہ ایمان جوکھم میں ڈال کر روزی حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پکے کے ڈاکو کچے کے ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں۔ جب کہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ مینڈیٹ کے ڈاکو تمام اقسام کے ڈاکوئوں کے مربی اور سرپرست ہیں۔ حقیقت جو کچھ بھی ہے۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ ڈاکو بھی ہوتے تو انسان ہی ہیں ناں۔ ان کے بھی چھوٹے بڑے بچے اور شریک حیات ہوتی ہوں گی۔ ان کی بھی ضروریات ہوتی ہوں گی۔ روٹی کپڑا مکان کے علاوہ اسلحہ کچے کے ڈاکوئوں کی اضافی ضرورت اور ان کا زیور ہوتا ہے۔
ہم تو وہ قوم ہیں کہ اپنے بچوں کو پڑھائیں نہ پڑھائیں، دشمن کے بچوں کو بھی پڑھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اب ہم نے ڈاکوئوں اور ان کے بچوں کو پڑھانے کی ٹھان لی ہے۔ ڈاکو تو غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں۔ یہ ڈاکو اسی قوم کے سپوت ہیں جس کے جوان ہٹوں اور دکانوں پر نہیں بکا کرتے تھے۔ ٹیسوری صاحب پہلے گورنر ہیں جنہوں نے ڈاکو طبقے کی بہتری کے لیے صرف سوچا نہیں، عملی قدم اٹھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی یعنی آئی ٹی سے استفادے کے لیے ان کو اور ان کے بچوں کو آئی ٹی پروگرام میں شمولیت کی کھلے دل سے پیشکش کی ہے۔
گورنر صاحب کا پیغام اور پیشکش یقینا ڈاکو بھائیوں تک پہنچ گیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ڈاکو
ایک دو روز میں ان کیمرا میٹنگ کرکے پیشکش کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیں۔ اس صورت میں ڈاکو بھائیوں کی تعلیمی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے پرامن تعلیمی ماحول کی فراہمی۔ ضرورت کے مطابق جدید کمپیوٹرز کی فراہمی (پنجاب حکومت سے کمپیوٹرز ہدیہ کروائے جاسکتے ہیں) اگر یہ ٹریننگ آن لائن ہوگی تو ڈاکو طبقے کے دشوار گزار کچے کے علاقے میں اس کا مناسب بندوبست۔ اور اگر آئی ٹی ماہرین نے کچے میں جا کر ڈاکؤں کو ’’ان کچھار‘‘ پڑھانا ہے تو ٹرینر یعنی اساتذہ کی ممکنہ حالات کے مطابق تیاری اور فراہمی کا انتظام کرنا گورنر صاحب کے ذمہ ہوگا۔ جس میں ان اساتذہ کے لیے بلٹ پروف لباس اور بلٹ پروف گاڑیوں اور لائف انشورنس کا بندوبست بھی کرنا شامل ہوگا۔
ڈاکو بھائیوں اور بھتیجوں (ڈاکؤں کے بچوں) کو اگر گورنر ہاؤس آ کر کلاسیں لینی ہیں تو پھر ان کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ کے علاوہ راستوں کو محفوظ بنانا ہوگا۔ کیونکہ ڈاکو بھائیوں کے جانوں کے دشمن ہر وقت تاک میں ہوں گے۔ ان کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ تربیت لینے کے بعد کچے کے پڑھے لکھے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ڈاکو اور ان کے نونہال کچے کے ’’مفید ڈاکو‘‘ ثابت ہوں گے۔ آئی ٹی کی تربیت سے ان کے کام میں جدت اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔ یہ ڈاکو اور ان کے بچے اپنے آپ کو تنہا اور لاوارث نہیں سمجھیں گے۔ اس نیکی سے کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کے درمیان تعاون اور دوستی کی مزید راہیں کھلیں گی۔ اگر ڈاکو بھائیوں نے گورنر صاحب کی پیشکش قبول کر لی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان آئی ٹی بیسڈ ڈاکو پیدا کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا۔ امید ہے کہ عید کے بعد گورنر صاحب کی طرف سے کراچی کے گلی کوچوں میں لوٹ مار کرنے اور لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے ڈاکو بھائیوں کی آئی ٹی تعلیم کا کوئی جامع منصوبہ بھی سامنے آجائے گا۔ اہل کراچی کو مینڈیٹ کے ڈاکوؤں، پکے کے ڈاکوؤں اور گلی محلے کے ڈاکوؤں کا سامنا ہے۔ نہیں معلوم ان تین قسم کے ڈاکوؤں کی لوٹ مار سے کراچی کو کب نجات ملے گی۔