اسلامو فوبیا- عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ (حصہ اوّل)

521

اسلامو فوبیا، اسلام، اسلامی علامت و مقدسات اور مسلمانوں کے خلاف منفی، شر انگیز پروپیگنڈا مہم چلانے، اسلامی مقدسات مثلاً قرآن کریم اور رسول کریمؐ کی توہین کرنے، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور پرتشدد کارروائیاں کرنے کا نام ہے۔

الحمدللہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں اور دیگر مسلم اور امن دوست غیر مسلم ممالک کی تائید سے 15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ نے ’’یوم انسداد اسلاموفوبیا‘‘ منانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد بھی منظور کی۔ اس وقت سے اب ہر سال 15 مارچ کو عالمی سطح پر دنیا کے 140 ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک اور کامیابی بھی اُسی وقت ہوئی جب 15 مارچ 2024ء کو اقوام متحدہ نے انسداد اسلاموفوبیا کے حق میں پیش کی گئی پاکستان کی قرارداد کو 113 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کر لیا۔ اس قرارداد کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں آیا جبکہ 43 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جن میں بھارت سر فہرست ہے۔ 15 مارچ 2024ء کو مقامی ہوٹل میں اسلامو فوبیا کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں چین کے قونصل جنرل جناب جمال سانگو، ایران کے قونصل جنرل حسن نورین، انڈونیشیا کے کونسل جنرل جناب ڈاکٹر جون کنکورو کے نمائندے کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ میں نے اپنے اس خطاب میں واضح کیا کہ اسلام امن، آشتی، برداشت کا مذہب ہے اور نبی اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات، تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ لوگوں کے دِلوں میں اسلام اور مسلمانوں کا خوف بٹھایا گیا ہے۔ اسلامو فوبیا کیوں ہے؟ نفرت، تشدد، تعصب دراصل بیمار ذہنیت کی علامات ہیں۔ نبی اکرمؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کیا اور جب فتح مکہ کے موقع پر کسی نے آواز بلند کی۔

الیوم یوم الملحمہ آج کے دن انتقام کا دن ہے۔
رسول اکرمؐ نے فوراً اس کی تردید کی اور اعلان فرمایا۔
لا الیوم یوم المرحمہ نہیں! آج کا دن رحم کا دن ہے، آج کا دن معافی اور درگزر کرنے کا دن ہے۔
’’دی ہندرڈز‘‘ نصف مائیکل ایچ ہرٹ نے سیدنا محمدؐ کو انسانی تاریخ کی مؤثر ترین شخصیت قرار دیا اور معروف ہندو شاعر کنور مہندر سنگھ نے کیا خوب کہا ہے۔
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ: لا نفرق بین احد من رسل ’’ہم رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے‘‘۔ اسلام دیگر مذاہب کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے۔ مسلمان جب بھی سیدنا عیسیٰؑ کا نام لیتے ہیں تو ان کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ یا ’’علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام‘‘ کہہ کر ان پر بھی اپنے نبی کی طرح درود و سلام پڑھتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں مسلمان مردوں کے نام ’’عیسیٰ‘‘ ہیں۔ قرآن کریم کی ایک صورت کا نام ’’سورۂ مریم‘‘ ہے اور دنیا بھر میں ہزاروں مسلمان بچیاں اور عورتیں ہیں جن کے نام ’’مریم‘‘ ہیں۔ یہ ہے عالمی بھائی چارے کی بنیاد جس کے تحت اسلام، رنگ، نسل، زبان کے تمام تعصبات کو رد کرتا ہے اور سیدنا عیسیٰؑ اور سیدنا موسیؑ کو اللہ کا نبی تسلیم کرواتا ہے اور ان کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’گیتا‘‘ کے 50 ترجمے مسلمانوں نے کیے ہیں جن میں سے ایک منظوم اردو ترجمہ پاکستان کے نہایت قابل عالم خلیفہ عبدالحکیم نے کیا ہے۔

اسلامی سربراہ کانفرنس یعنی او آئی سی کہ ایک رپورٹ جس نے دسمبر 2020ء سے جنوری 2022ء تک کے واقعات کی تفصیلات درج کی ہیں اس رپورٹ کے مطابق انڈیا، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا اسلامو فوبیا کی منفی سرگرمیوں کے مراکز ہیں۔ کچھ ممالک میں اسلاموفوبیا سرگرمیاں سرکاری سرپرستی میں جا رہی ہیں جن میں بھارت سر فہرست ہے جہاں مساجد کو سرکاری سرپرستی میں مندر بنایا جا رہا ہے جب کہ فرانس میں نبی اکرمؐ کے (نعوذ باللہ) خاکے شائع کر کے انہیں صدارتی محل اور حکومتی عمارات پر آویزاں کیا گیا۔

انسانی و خواتین کے حقوق کے معاملے میں مغرب کا دہرا معیار ہے۔ اس کی مثال ایران میں 22 سالہ کردش خاتون مہسا امینی کی حراستی ہلاکت ہے جو 16 ستمبر 2022ء کا واقعہ ہے۔ وہ مبینہ طور پر ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں تہران میں دوران حراست ہلاک ہوئی۔ اس موت کو بہانہ بنا کر مغربی میڈیا نے ایک طوفان برپا کر دیا اور حجاب اور اسلام کے خلاف بھرپور منفی پروپیگنڈے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ پروپیگنڈا تشہیری مہم کے لیے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ، یوٹیوب، ٹی وی چینلوں کا بھرپور استعمال کیا گیا اور مہسا امینی کو مظلوم ترین خاتون کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس مہم پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ صرف امریکا میں 15 ہزار سے زائد کالم لکھے گئے، برطانیہ میں صرف آٹھ دنوں میں 720 کالم لکھے گئے۔ جرمنی میں آٹھ دنوں میں 500 کالم لکھے گئے۔ کیا واقعتا ایسا ہے کہ مہسا امینی دنیا کی مظلوم ترین خاتون تھی یا اس سے لاکھوں گنا زیادہ مظالم مغرب نے خواتین پر ڈھائے اور بھارت و اسرائیل نے بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں پر تاریخ کے بدترین مظالم ڈھائے۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں خواتین کا استحصال کیا، خواتین کی عصمت دری میں بھارت کا عالمی ریکارڈ ہے، مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کی تفصیلات ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں۔ بچوں کو پیلٹ گن کے استعمال سے نابینا بنایا جا رہا ہے۔ امریکا نے نریندر مودی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے حالانکہ نریندر مودی ’’گجرات کا قصاب‘‘ کے نام سے مشہور رہا ہے۔ انڈیا کے مختلف حصوں میں اسکارف پر پابندی ہے۔ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کرنے والوں کو جب عدالت سے رہا کیا گیا تو انہیں ہار پہنانے والوں میں بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما بھی شامل تھے۔ بھارتی حکومت کے ترجمان نورپور شرما نے نبی اکرمؐ کی شان میں انتہائی گستاخانہ کلمات کہے جس سے دنیا بھر کے ایک ارب 90 کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔

مروہ شربینی ایک مصری خواتین تھیں۔ انہیں 2009ء میں بھری عدالت میں قتل کیا گیا۔ مروہ نے اپنے اوپر حملہ کرنے والے جرمن مرد کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ جس نے اسکارف کو تضحیک کا نشانہ بنایا تھا اور مروہ پر تشدد کیا۔ مروہ کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے ’’شہید حجاب‘‘ قرار دیا۔ 2013ء سے دنیا بھر کے 140 ممالک میں ہر سال یوم حجاب یکم فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس دن مسلم اور غیر مسلم خواتین حجاب پہن کر مستقلاً حجاب پہننے والی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہیں۔ مروہ کو مسلمانوں نے یاد رکھا جب کہ مغرب نے نظر انداز کر دیا، کیا یہ دہرا معیار نہیں ہے؟ جرمنی حکومت نے مروہ کے انتقال کے نو دن بعد تعزیت کا اظہار کیا۔ جرمنی میڈیا اتنا جانبدار اور متعصب ہے کہ اس نے مروہ کے انتقال کی خبر پچھلے صفحات پر شائع کی جب کہ مہسا کے لیے ہزاروں کالم لکھے گئے۔

یہ عمل انتہائی افسوسناک ہے کہ انسانی و خواتین کے حقوق کے نام نہاد عالمی چمپئنوں نے خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں فرانس، جرمنی، اٹلی، سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ کشمیر میں انڈیا نے آٹھ لاکھ افواج تعینات کر رکھی ہیں۔ بھارت کشمیر میں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ جنوری 1989ء سے 30 اکتوبر 2020ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق: مارے جانے والے افراد: 95,709۔ تحویل میں ہلاک کیے جانے والے: 7,150۔ قید افراد: 161,131۔ عمارتیں اور دیگر اسٹرکچر تباہ کیا: 110,376۔ خواتین بیوہ ہوئیں: 22,922۔ بچے یتیم کیے گئے: 107,805۔ خواتین کی عصمت دری: 11,224۔ سالانہ اوسطاً 3087 افراد قتل کیے گئے ہیں جبکہ ماہانہ 257 اور یومیہ 9 افراد قتل کیے گئے ہیں۔ تحویل میں یومیہ اوسطاً ایک فرد، ماہانہ 20 سالانہ 238 افراد مارے جا رہے ہیں۔ یومیہ 2 خواتین، ماہانہ 62 اور سالانہ 739 خواتین بیوہ کی گئیں، یومیہ 10، ماہانہ 290 اور سالانہ 3478 بچوں کو یتیم کیا جا رہا ہے۔ یومیہ ایک، ماہانہ 30 اور سالانہ 362 خواتین کی اوسطاً عصمت دری کی گئی ہے۔ یہ اعدادو شمار چشم کشا ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیر میں نہایت منظم منصوبہ بندی کے ذریعے نسل کشی کا عمل جاری ہے۔