!!منصف ہی فریادی

377

انصاف کو تو موت کی طرح ہونا چاہیے وہ نہ بادشاہ دیکھے نہ گدا، یہ امیر دیکھے نہ فقیر، حتیٰ کے صنف نازک ہی انصاف کی کسوٹی پر سزاوار ہو تو سزا پائے۔ کتنی خوب صورت بات نبی کریمؐ نے فرمائی کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ محسن انسانیت کی دختر ہے۔ خاتم الانبیاء کی لخت جگر ہے۔ عالم گیر افادیت کے حامل اس جملے نے گل ہی مکا دی اور وہ پیمانہ تھما دیا جو دنیا میں امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ جب تک انصاف موت کی طرح ہر سزا وار کو کیفر کردار تک پہنچاتا رہا دنیا جنت نظیر بنی رہی اور ظالم دبکے رہے، خوف سے لرزاں و ترساں رہے اور اب بھی جہاں عدل کا یہ بے مثل فارمولا روبہ عمل ہے وہاں کرائم سے لے کر کرپشن تک سب کو لگام ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کی تو بات ہی کیا۔ سونے سے لدی پھندی تن تنہا عورت عازم سفر تو اسے رہزنوں کا خوف نہ تھا بلکہ جنگلی درندوں کا اندیشہ تھا۔ اس دور میں موت کی طرح انصاف بھی کسی کو نہ چھورٹا تھا۔

بات اگر پاکستان کے مسائلستان بننے کی کریں تو یہ نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور ہم نے اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اس طرح رکھ دیا جس کو یوں تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ پڑھا لکھا کچھ نہیں نام محمد فاضل یعنی نام سے کام چلانے کی حماقت ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں اس مملکت میں عدل کو حراساں کیا جانا معمول بن گیا۔ ریمنڈیوس کی رہائی سے لے کر اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے جج صاحبان، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت اختیار صاحبان نے سپریم جوڈیشنل کونسل کو خط میں ایجنسیوں کی مداخلت اور ہراسگی کی شکایت کی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ کو مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے لکھا لیکن کچھ نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد جو ملک کا دارلحکومت ہے کاش کہ مملکت میں خلافت کی نیابت ہوتی تو یہ شکوہ شکایت کی بات کی نوبت ہی نہ آتی۔ ٹھیک ہے ہراسگی ہو رہی ہے تو جسٹس کارنیلسن کی وہ بات مجھے یاد آرہی ہے کہ جب صدر ایوب خان جو فیلڈ مارشل کا تمغہ سجائے حکمران تھے انہوں نے جسٹس کارنیلسن کو جب کہا کہ میں تمہارا حکم نہ مانو تو تم کیا کر لو گے؟ تو جسٹس کارنیلسن نے کہا کہ حکم عدولی پر میں استعفا دے دوں گا اور دنیا کو بتائوں گا کہ وجہ استعفا کیا ہے تو تمہاری حکمرانی دو کوڑی کی وقعت کی عالم تمام میں ہو کر رہ جائے گی۔ صدر ایوب کی سٹی گم ہو گئی یہ جواب سن کر اب یہ جرأت ایمانی بھی شکوہ شکایت کی نچلی سطح پر آگئی۔

ہائی کورٹ کے جج 24 گھنٹے ہر لمحہ جج ہوتے ہیں اور وہ ٹائم فریم کی قید سے آزاد ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت فیصلہ صادر کر سکتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو صدر اور گورنر کو عدالت حاضری سے استثنیٰ ہے اسلام میں اس کی قطعی گنجائش نہیں بلکہ اسلامی تاریخ تو بتاتی ہے کہ ایک صحابی کا مکان مسجد نبوی سے متصل تھا اس مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا برسات وہ دیگر پانی سے مسجد نبوی متاثر ہوتی تھی۔ سیدنا عمرؓ نے دور فاروقی میں مالک مکان کی اجازت لیے بغیر وہ پرنالہ ہٹا دیا جب اس صحابی کو علم ہوا تو وہ قاضی ابی بن کعب کی عدالت میں سیدنا عمرؓ کے خلاف فریادی ہوئے قاضی ابی بن کعب نے حکم دیا کہ سیدنا عمر امیر المومنین ان کی عدالت میں حاضر ہوں۔ آپ اور فریادی عدالت میں حاضر ہوے تو قاضی نے حکمران وقت اور فریادی کو برابر کھڑا کیا اور فریادی کو کہا کہ وہ مدعا پیش کرے۔ اس صحابی نے کہا کہ یہ پرنالہ جو سیدنا عمرؓ نے ہٹایا ہے یہ اللہ کے رسول نے لگایا تھا، میں زمین پر کھڑا تھا، حضور نے میرے کندھوں پر چڑھ کر اپنے مبارک ہاتھوں سے نصب کیا جو ابوبکر صدیق کے دور میں بھی برقرار رہا اور سیدنا عمرؓ نے بلا اجازت پرنالہ ہٹا کر زیادتی کی ہے مجھے انصاف عطا ہو۔ قاضی نے صحابی سے دو گواہ طلب کیے وہ گئے اور دو گواہ لے آئے جنہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے دیکھا کہ فریادی کے بیان کے مطابق رسول اللہؐ نے پرنالہ نصب کیا۔ اس گواہی پر قاضی نے فیصلہ دیا کہ اب سیدنا عمرؓ زمین پر کھڑے ہوں گے صحابی ان کے کندھوں پر سوار ہو کر اسی جگہ پرنالہ لگائے گا جہاں نبی اکرمؐ نے نصب کیا پھر ارضِ وسماء نے دیکھا کہ خلیفہ وقت سیدنا عمرؓ نے جس سے شیطان بھی کنی کتراتا ہے زمین پر کھڑے ہیں اور صحابی ان کے کندھوں پر سوار ہو کر پرنالہ لگا رہے ہیں وہ صحابی فارغ ہوئے تو انہوں نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا اور کہا کہ مجھے سیدنا عمرؓ کی تقصیر درکار نہ تھی بلکہ یہ بتانا تھا کہ اسلام میں عدل کے معاملے میں خلیفہ اور عام فرد برابر کی حیثیت کے حامل ہیں یہ تھی اسلامی ریاست کا نظام عدل جس نے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کیا اور کہتے ہیں کہ ابی بن کعب نے بھی اس مرحلہ پر فرمایا کہ اگر عمرؓ میرا حکم نہ مانتے تو میں ان کی کوڑے سے خبر لیتا!