رمضان المبارک کے روزے اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہیں۔ روزوں کے فلسفے اور مسائل پر اگر غور کیا جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی انسان کے لیے مرتب کردہ نظام کی سچائی و حکمت پر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ طمع ایک عام انسان کی فطرت کا جزو لاینفک ہے۔ اسی کے تحت جہاں انسان زندگی کے دیگر معاملات میں طمع کا شکار رہتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر کھانے پینے کے معاملے میں بھی طمع کا عنصر کام کرتا ہے اور بدقسمتی سے آج کے جدید دور میں ہوٹلوں، ریستورانوں، فاسٹ فوڈ اور اس پر مستزاد ہوم ڈلیوری کی فراوانی نے تو کھانے پینے کے لالچ کو بدرجہ اتم پہنچا دیا ہے اور انسان ’’سب کچھ جانتے بھی‘‘ اپنی صحت و زندگی سے لاپروا ’’زبان کے چند لمحے کے چٹخارے‘‘ کے لیے یہ سب کچھ دھڑا دھڑ اپنے اندر انڈیلنے میں لگا ہوا ہے۔ روزہ رکھنے والے لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک عام صحت مند انسان۔ دوسرا کسی مرض سے متاثر انسان اور تیسرا وہ خواتین جو کسی خاص حالت سے گزر رہی ہوں۔
ان تینوں اقسام میں بنیادی ہدایات تو مشترک ہیں مگر اپنے مخصوص حالات کے باعث دوسرے اور تیسرے گروہ کو کچھ خصوصی اقدامات اور احتیاطیں کرنی پڑتی ہیں۔ روزے کا آغاز سحری سے ہوتا ہے سحری کھانا صرف ضرورت ہی نہیں بلکہ سنت اور ثواب ہے لہٰذا سحری ضرور کھائیں مگر احتیاط سے۔ یاد رکھیں کہ انسانی معدہ ایک قدرتی عضو ہے اور بیک وقت مجموعی طور پر کام کرتا ہے۔ یہ کوئی کمپیوٹرائزڈ مشین نہیں ہے جس میں تین چار وقت کی خوراک ٹھوس کر فیڈ کر دیا جائے تو وہ مقررہ وقت پر اس خوراک کو معدے سے جسم میں داخل کر دے گی بلکہ جو کچھ بھی آپ کھائیں گے وہ ایک ساتھ معدے میں جائے گا ایک ساتھ ہضم کے عمل سے گزر کر ایک ساتھ جذب کے عمل میں چلا جائے گا اور بسیار خوری کے نتیجہ میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں بد ہضمی سے لے کر طویل مدتی نقصانات شامل ہیں۔ یاد رہے کہ خوراک کے انتخاب میں عمر صحت اور موسم کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے ایک اوسط درجے کی سحری میں ایک کم چکنائی کا پراٹھا تھوڑا سا سالن تھوڑا سا دہی یا سویاں پھینیاں وغیرہ شامل ہیں۔ جنہیں حسب خواہش پراٹھے کے بجائے سادہ روٹی یا برائون بریڈ، سالن کی جگہ انڈے یا شامی کباب وغیرہ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
سحری کے بعد نماز کی تیاری کیجیے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد نیند کا غلبہ ہوتا ہے لیکن عبادت کے ثواب سے ہٹ کر بھی جسمانی فائدے کے لیے اگر آپ سحری کے بعد جسم کو متحرک رکھیں تو اس کے جسم پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا کوشش کریں کہ نماز کے بعد ذکر اذکار و تلاوت میں مشغول رہیں یہاں تک کہ سورج نکلنے کے بعد نوافل پڑھ کر اگر کام پہ جانے سے پہلے وقت ہو تو بے شک تھوڑی سی نیند لے لیں۔ ظہر کی نماز کے بعد قیلولہ کرنا بھی جسم میں نئے سرے سے ایک تازگی پیدا کرنے کا باعث ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے والے لوگ بھی روزوں میں یہ معمول ترک کر دیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے ورزش کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کو باقاعدگی سے جاری رکھا جائے فرق صرف اتنا ہے کہ رمضان میں اس کے اوقات اور شدت میں مناسب تبدیلی کر لی جائے مثال کے طور پر عصر کی نماز کے بعد افطاری سے کچھ پہلے 20 سے 30 منٹ کی واک آپ کو نہ صرف چاق و چو بند کر دے گی بلکہ افطاری کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی بہتر تیار کر دے گی۔
افطاری روزے کا سب سے پررونق اور پر لطف مرحلہ ہے جب اللہ کی خاطر سارا دن بھوک پیاس برداشت کرنے والے گھر میں دسترخوان پر اکٹھا بیٹھ کر روزہ افطار کرتے ہیں۔ لیکن یہی مرحلہ سب سے بڑا امتحان بھی ہوتا ہے کیونکہ سحری کی احتیاط تو شاید ہر ایک آسانی سے کر لیتا ہے لیکن افطاری کی احتیاط کرنا جان جوکھم کا کام ہے۔
رنگ برنگ کی کھجوریں، پھل، پکوڑے، سموسے، چاٹ، کباب، کچوریاں، شربت، قورمہ بریانی اور روسٹ جیسی چیزیں سامنے ہوں اور دن بھر کی بھوک پیاس ہو تو پھر ہاتھ رکنا کافی مشکل ہے۔ لیکن اگر ہم روزے کے فلسفے سے آگاہ ہوں، زیادہ کھانے کے نقصانات سے واقف ہوں اور اپنی صحت کی طویل مدتی بہتری میں دلچسپ بھی رکھتے ہیں تو پھر ہاتھ روکنا کوئی زیادہ مشکل کام بھی نہیں۔ سب سے بہتر رویہ تو یہ ہے کہ دسترخوان پر اپنے شوق کے لیے یا بچوں کی خوشی کے لیے اتنا کچھ جمع ہی نہ کیا جائے جس سے ختم کرنا یا چھوڑنا محال دونوں لگیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کا تصور دل میں لائیں جو نہ صرف ان نعمتوں بلکہ معمول کے کھانے سے بھی محروم ہیں۔ افطاری کے معاملے میں اسراف سے بچ کر آپ نہ صرف اپنے بہن بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں بلکہ اپنی صحت کی بھی بخوبی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں خواتین کا کردار بے حد اہم ہے جو پہلے خود کو اور پھر پیار سے بچوں کو سمجھا کر افطاری میں اعتدال قائم رکھ سکتی ہیں۔
یہ تمام چیزیں جہاں تمام اقسام کے روزے داروں میں مشترک ہیں وہاں اخر الذکر دو گروہوں میں مختلف قسم کی خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف امراض سے متاثر لوگ جس میں سب سے زیادہ تعداد شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو باستثنیٰ روزوں کی اجازت ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ احتیاط جس کے بارے میں عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے ان کے اوپر گویا قانوناً لاگو ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے مرض کی وجہ سے ان کے پاس دوسروں کی نسبت پلینگ فیلڈ کم ہوتی ہے۔ کھانا خواہ کتنا ہی مزیدار کیوں نہ ہو بلڈ پریشر کے مریض کو نمک اور چکنائی والی چیزوں بشمول گوشت خصوصاً بڑے گوشت سے بہرحال ہاتھ روکنا پڑے گا۔ بس صرف اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ہر قسم کی خوراک سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ شوگر کے مریضوں کو خصوصاً دوران رمضان میٹھے کی احتیاط بے حد ضروری ہے تلی ہوئی چیزوں اور گھر میں بننے والے دیگر رنگا رنگ پکوانوں سے مکمل پرہیز کریں اور مناسب مقدار میں صرف پھلوں کی قدرتی مٹھاس استعمال کریں۔ پانی کا استعمال ضروری ہے مگر مصنوعی مشروبات سے قطعاً پرہیز کیا جائے۔ روزے کے درمیان اپنے گلوکوز لیول کا خیال رکھیں اور سحری افطاری کے علاوہ دن میں بھی اس کو چیک کریں۔
ذیابیطس دو قسم کی ہوتی ہے پہلی قسم میں مکمل طور پر انسولین کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے اور اس میں روزے کے دوران پیچیدگیوں کے زیادہ امکان ہوتے ہیں اور ایسے مریضوں کو روزے نہ رکھنے یا بے حد احتیاط کرنے کی ہدایت ہے جبکہ دوسری قسم کے مریض خوردنی دوائیوں یا خوردنی دوائیاں اور انسولین کے ذریعے اپنے مرض کا علاج کرتے ہیں ان کے لیے روزے کا مکمل کرنا نسبتاً آسان کام ہے۔ اسی طرح گردے کے مریضوں کے لیے بھی روزے میں احتیاط ضروری ہے کم شدت کے مرض میں انسان روزہ رکھ سکتا ہے لیکن پانی بدل میں پانی کی طرح سب کو خاص خیال رکھنا ہوتا ہے اور وہ مریض جن کی بیماری زیادہ شدت ہو انہیں روزہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔
حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو روزے کی رعایت ہے لیکن عام مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسی خواتین بھی مناسب احتیاط کے ساتھ روزہ رکھ لیتی ہیں اور انہیں زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ البتہ وہ حاملہ خواتین جو ذیابیطس سے متاثر ہوں اور انسولین لے رہی ہوں انہیں روزہ رکھنے میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ ان میں شوگر کا لیول گرنے کا بہت احتمال ہوتا ہے جو خود ان کے لیے اور ان کے بچے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اور بہتر یہی ہے کہ وہ دی گئی رعایت سے مستفید ہوں۔ غرض یہ کہ کسی بھی مرض سے متاثر انسان روزہ رکھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک تو خوراک میں احتیاط بہت ضروری ہے اور دوسرے اوقات کی مناسبت سے دوائیوں میں کچھ رد و بدل کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کی نگرانی میں ہی ہو سکتا ہے۔ رمضان کی مناسبت سے بہت سی اسٹڈیز موجود ہیں مثال کے طور پر شوگر کے لیے کئی اسٹڈیز مثلاً READ اور EPEDIAR وغیرہ جو بیک وقت دنیا کے کئی براعظموں بشمول ایشیا، یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں کی گئیں سے یہ نتائج اخذ کیے گئے کہ عالم اسلام کی مریضوں کی ایک بڑی تعداد رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھتی ہے اور اگر مکمل احتیاط اور طبی نگرانی کا خیال رکھا جائے تو پیچیدگیوں کی شرح کافی کم ہے۔ بہرحال یہ ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے اور وہ اپنی استعداد اور ہمت کے مطابق روزے رکھ یا چھوڑ سکتا ہے۔