ایک وقت تھا کہ جب حکومت واقعی حکومت ہوتی تھی‘ سال میں ایک بار وزن کرنے والے باٹ کا معائنہ ہوتا تھا۔ اگر یہ وزن میں کم پائے جاتے تو انتظامیہ جرمانہ کرتی تھی مگر اب کیا ہے؟ گیس کمپنی سال میں تین تین بار قیمت بڑھا رہی ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے‘ پوچھے کون؟ پوچھے وہ جو کمیشن نہیں کھاتا، یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ کوئی وزیر، صدر اور وزیر اعظم منافع بخش عہدہ نہیں رکھ سکتا، یہ پابندی آئین نے لگا رکھی ہے، مگر آج تو ہر وزیر کسی نہ کسی کا نمائندہ ہے اور اسی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اگر یہی کچھ ہے تو پھر گیس کی قیمت کیوں نہ بڑھے؟ اوگرا نے گیس کی قیمتوں 145 فی صد اضافے کے لیے سوئی ناردرن گیس کمپنی کی درخواست کی سماعت کی۔ سوئی ناردرن نے 4489 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت تجویز کی ہے۔ دوسری جانب صوبائی دارالحکومت کے بیش تر علاقوں میں 13ویں روزے کو بھی کھلے عام سبزیوں اور پھلوں کی گراں فروشی جاری رہی۔ صارفین کا کہنا ہے کہ سرکاری نرخنامے میں ایک کلو آلو نیا درجہ اوّل کی سرکاری قیمت 53روپے کلو مقرر تھی جبکہ دکاندار 70 سے 75روپے تک فروخت کررہے ہیں۔ تاجکستانی پیاز 140کے بجائے 170، پیاز درجہ اول 180روپے کے بجائے 250 سے 260 روپے کلو فروخت کی جا رہی ہے۔ اسی طرح دوسری سبزیوں پر بھی من مانی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ تمام تر حکومتی دعوئوں اور اقدامات کے باوجود عام بازاروں اور مارکیٹ سمیت رمضان بازاروں میں گرانی عروج پر نظر آرہی ہے۔ اشیاء کے غیرمعیاری ہونے کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے کوشاں ہیں اور رمضان بازاروں کے دورے بھی کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود اشیاء خورو نوش کے نرخ بڑھتے ہی جا رہے ہیں جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ منافع خور طاقتور مافیا نہ صرف حکومتی رٹ کو چیلنج کررہا ہے بلکہ ماہ رمضان میں دونوں ہاتھوں سے ناجائز منافع خوری بھی کررہا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں ہیں کہیں نہیں ہیں۔ ان کی تھوڑی بہت فعالیت بھی بے سود نظر آرہی ہے۔ دکانوں پر سرکاری نرخنامے آویزاں ہیں مگر دکاندار گاہکوں سے من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں جو حکومت کے لیے لمحہ فکر ہونی چاہئیں بالخصوص یہ ساری صورتحال وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی توجہ کی متقاضی ہے جو عوام کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
دوسری جانب سوئی ناردرن گیس نے ایک ہی سال میں تیسری بار گیس کی قیمت بڑھانے کے لیے حکومت سے اجازت مانگ لی ہے۔ اول تو عوام کو ماہ رمضان میں بھی بدترین گیس لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، اگر کسی علاقے میں گیس میسر ہے تو اس کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ اتحادی حکومت کو اجازت دینے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ اقتدار میں عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کرکے آئی ہے۔ اگر اس نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کی تو اتحادیوں کو ایک بار پھر سخت عوامی ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بے شک ملکی اقتصادی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور دوسری جانب آئی ایم ایف کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے۔ اس لیے حکومت کے لیے سخت فیصلے کرنا ناگزیر ہیں۔ اتحادی حکومت کے لیے یہی کڑا امتحان ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو کس طرح مطمئن کرتی ہے اور مشکلات کے بھنور سے عوام کو کس طرح باہر نکالتی ہے۔