ایک جامع عبادت

447

روزہ ایک آسان عبادت ہے آسان ان معنوں میں ہے کہ دوسری تمام عبادتوں کے مختلف اعمال ووظائف ہیں جن کو انجام دینا یا ادا کرنا پڑتا ہے جیسے نماز میں: رکوع، سجدہ، قیام، و تعوذ۔ حج میں احرام و تلبیہ، سعی و طواف وغیرہ زکوٰۃ میں نصاب زکوٰۃ کی تشخیص مستحق کی تلاش اس کے بعد ادائیگی۔ زکوٰۃ جہاد تو سراپا عمل اور جدو جہد ہے آزمائشوں سے پُر صبر آزما ہنگامہ خیز عبادت ہے۔

ان پانچوں عبادتوں میں صرف روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں اس فرض صوم کو ادا کرنے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ بس ارادہ کرلیا کہ میں آج اللہ ربّ العالمین کے لیے روزہ سے ہوں اور یہ عبادت اپنے آپ شروع ہوگئی یہ ایسی عبادت ہے کہ کسی کام میں خلل ڈالتی ہے نہ کوئی اور مصروفیت اس میں خلل انداز ہوتی ہے۔

نماز کے قاعدے اور ضابطے میں ترتیب و تنظیم ہے، ان سب کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ پھر آیات قرآنی تکبیر اور سلام پڑھنا ہوتا ہے۔ حج میں بھی مختلف مناسک ہوتے ہیں اور ان کے لیے خاص خاص دعائیں ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں کچھ کرنا تو درکنا ر زباں تک چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نماز میں آپ نماز کے علاوہ دوسری کوئی عبادت نہیں کرسکتے طواف میں آپ نماز نہیں پڑھ سکتے یعنی طواف بھی کررہے ہیں اور نماز بھی پڑھ رہے ہوں یہ ممکن نہیں۔

دوسری عبادات اپنے سوا کسی اور عبادت کا تحمل نہیں رکھتیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں آپ بہت سی عبادتیںکرتے رہیں پھر بھی اس عبادت صوم میں فرق نہیں پڑے گا دوسری عبادتوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی جاری رہے گی منقطع نہ ہوگی آپ نماز پڑھ لیجیے نماز میں بھی روزہ کا تسلسل رہے گا اور روزہ میں نماز کے فرائض و واجبات انجام پا جائیں گے۔

روزہ رکھے رکھے طواف کعبہ چاہے جتنی بار کرلیں روزہ کا تسلسل ٹوٹتا نہیں اس طرح روزہ تمام نیکیوں اور عبادتوں کا تحمل کرتا ان کو اپنے اندر جذب کرتا جاتا ہے اگر روزہ کو ایک عبادت جامع کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ وہ سب عبادتوں کو سمو لیتا ہے‘۔

جو عبادتیں حالتِ صوم میں ادا کی جاتی ہیں اور جو بھلائیاں اور نیکیاں روزہ کی حالت میں کی جاتی ہیں ان کے اثرات و کیفیات روزہ کے اثرو کیفیت میں شامل ہوتے بلکہ تحلیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح روزے کی کیفیت زیادہ موثر زیادہ نفیس پاکیزہ لطیف اور گرا نمایہ ہوجاتی ہے بھلائیوں نیکیوں اور عبادتوں کی یہ مجموعی لطافت و نفاست آدمی کے مزاج و طبع ا حساس و ذوق فکر و عمل پر دور رس اثرات چھوڑتی ہے اور آدمی کو حق اور خیر کی طرف مائل کرتی اور مائل رکھتی ہے۔

روزہ ایک خاموش عبادت ہے وہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر انسانی جسم اور ذہن دونوں میں چپکے چپکے کام کرتا رہتا ہے وہ جسم و ذہن کے تمام فاسد مادوں کو تحلیل کردیتا ہے۔ پھر ان میں نیکیوں اور خوبیوں کی پود لگا دیتا ہے نبی کریمؐ نے روزے کو اس لیے سپر اور ڈھال سے تشبیہ دی ہے کہ روزہ نفس انسانی کے تقاضوں اور شیطان کی ترغیبوں کے مقابلہ میں ڈھال کا کام دیتا ہے اس وقت بھی جبکہ روزہ کی حالت ہو اور اس کے بعد بھی اس کے اثرات جرم و گناہ کے لیے روک بن جاتے ہیں اس طرح روزہ تزکیہ اور تصفیہ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

اللہ کی بارگاہ کرم میں ابن آدم کی ہر ہر نیکی دس گنا بڑھ جاتی ہے اور سات سو گنے تک اضافہ جاری رہتا ہے اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ اس کلیہ سے روزہ مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا صلہ دینے والا ہوں کیونکہ روزہ دار محض میرے لیے اپنی خواہشات کو ترک کر دیتا ہے کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں ایک جب وہ افطار کرتا ہے اور ایک وہ اس وقت بہرہ مند ہوگا جب اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگا۔