افغان پاکستان تنازع، باہمی توانائی کا ضیاع

599

مقدس ماہ رمضان جو نزول قرآن کا شرف لازوال کا حامل ہے۔ اس ماہ کے پہلے عشرہ میں جو رحمت کا کہلاتا ہے۔ میں افغانستان جو اسلامی ملک کہلاتا ہے جو پاکستان کو اسلامی برادر بھی کہتا ہے اس ملک کے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں بارود سے بھری گاڑی پاکستان کی فوجی چیک پوسٹ سے ٹکرا کر خودکش حملہ کیا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ کرنل کاشف علی، کیپٹن محمد بدر اور 5 دیگر فوجی جوان شہید ہوگئے۔ یہ ایک بڑی کارروائی تھی جس کی ذمے داری گل بہادر نامی کمانڈر نے قبول کی جو اپنے حواریوں کے ہمراہ افغانستان میں مقیم ہے۔ ان شہداء کی نماز جنازہ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، صدر زرداری، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، سینئر فوجی حکام و سول سروس، شہدا کے لواحقین نے شرکت کی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ ہمارے بیٹوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ماہ رمضان جس میں شیاطین قید ہوتے ہیں اس کے بہکائے ہوئے ان چیلوں چانٹوں نے مسلم خون سے ہولی کھیل کر ثابت کیا کہ ان فسادیوں کے پاس شریعت کی کوئی پاسداری نہیں مگر سوائے اس کے کہ وہ مطلب برآوری کے لیے اس کو استعمال کریں۔ پڑوسی کے حقوق، لہو مسلم کی قدر و منزلت بھول کر ان حملہ آوروں اور ان کے مربیوں نے ماہ رمضان کی حرمت کو پامال کیا۔ یہ غیر معمولی حرکت تھی تو پاکستان کے حکمرانوں نے بھی قرآن کے حکم قصاص ہی میں زندگی ہے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں قائم ان دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کیا۔ اور قابیل جیسے بھائی کا کردار ادا کرنے والے ان فسادیوں ٹھکانے کو ملیامیٹ کر ڈالا اور کئی دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ افغانستان حکومت نے خواتین اور بچوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔
افغانستان جو پڑوسی ہے اور مسلم ملک بھی ہے اس کی سرحدوں سے جارحیت کی ذمے داری ان طالبان حکمران پر ہی عائد ہوتی ہے جو برسراقتدار ہیں اور اسلام کی تسبیح پڑھتے ہیں۔ پاکستان کئی سال سے اپنا ماضی کا مسلم کردار روسی جارحیت کے مرحلے سے لے کر امریکا کی دراندازی میں مجبوریوں سے بتایا اور مناتا آیا ہے اور انتخاب سے پہلے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد افغانستان بھیجا جس نے حکمرانوں اور مذہبی قائدین سے ملاقاتیں کیں اور ایک خاموش معاہدہ ہوا اور یوں 8 فروری کے انتخابات پاکستان میں کسی بڑے خطرے سے محفوظ رہے۔ ان دنوں اس اعلیٰ سطحی اعزاز کی بدولت جمعیت علما اسلام بھی سمجھ بیٹھی کہ وہ بھی اقتدار میں حصہ خاص کی حقدار ہوگی اور مولانا صاحب کی ملکی صدارت پکی ہوگئی۔ مگر پھر کیا ہوا انتخابات کے نتائج نے مولانا فضل الرحمن کو ان کی آبائی سیٹ سے شکست کا منہ دکھا کر بتادیا کہ جو چاہے حسن کرشمہ ساز کرے اور مولانا کی پارٹی کو کل چار سیٹیں قومی اسمبلی کی مل سکیں اور اس پر گل مکا دی گئی تو مولانا فضل الرحمن کا شعلہ فگاں ہونا ہی تھا۔ مولانا نے پارٹی سے مشاورت کے بعد بیان جاری کیا کہ اب لڑائی ایوانوں کے بجائے میدانوں میں ہوگی۔
یوں ہوسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے ناداں دوستوں نے طاقت دکھانے کے لیے دہشت گردی کا انتخاب کیا ہو۔ جن کے ہاتھ مولانا فضل الرحمن انتخابات کے نتیجے میں صدارت ملنے کی آس میں باندھ آئے تھے۔ یہ صدارت تو آصف علی زرداری لے اُڑے تو بات ایوانوں سے میدانوں تک آگئی تو آصف علی زرداری صدر پاکستان نے بھی منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہہ ڈالا کہ اگر ایسا ہے تو ایسا ہی صحیح، ہم بھی چوڑیاں پہنے نہیں بیٹھے ہیں۔ سو جوابی وار میں منہ توڑ جواب دے دیا گیا اور پیغام پہنچا دیا گیا، گل بہادر جو کبھی پاکستان کی مقتدرہ کا چہیتا ہوا کرتا تھا اور بوقت ضرورت اس سے کام لیا جاتا تھا، اس نے اپنی فورس جہاد کے نام پر 5 سے 6 افراد کی بنائی ہوئی ہے، پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں جہاد کشمیر سے منہ موڑا گیا تو پھر یہ گروہ افغانستان چلا گیا، امریکا کے خلاف جہاد ختم ہوا تو یہ لڑوں لڑوں والے کیا کرتے کہتے ہیں کہ انہوں نے خرچہ پانی کے لیے پاکستان کے حکمرانوں سے دس ارب روپے مانگے مگر مول تول طے نہ ہوسکا تو کسی دشمن ملک بھارت نے ان کو زیادہ نرخ پر ہائر کرلیا تا کہ پاکستان کو افغانستان سے لڑا کر سانپ کو دشمن کے ہاتھ سے مروانے کا فارمولا اپنایا جائے تاکہ کوئی بھی مرے ہندوتوا کا بھلا ہووے۔
افغان حکمران جو ماشاء اللہ مدارس سے فارغ ہیں ان کو یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ مسلم خون کی قیمت اور پڑوسی کے حقوق کیا ہیں۔ یہ شوق جہاد گل بہادر غزہ میں مجاہدین حماس کی مدد کرکے کیوں پورا نہیں کرتے ہیں جن کو اس وقت جانبازوں کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان و افغانستان باہمی لڑائی میں طاقت و توانائی ضائع کرنے کے بجائے غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر صرف کریں، یہ وقت کی پکار ہے اگر نہ سنی تو مٹ جائو گے! اللہ ہدایت دے دعا ہی کرسکتے ہیں شریعت کا حکم ہے آپس میں مت لڑو تمہاری ہوا (رعب) اکھڑ جائے۔ روس، امریکا کی افغانستان میں عزیمت سے جو مسلم رعب کفر پر قائم ہوا ہے وہ پامال ہوسکتا ہے۔