اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انسانی حقوق کا نام نہاد چمپئن امریکا، اس کی انتظامیہ اور پالیسی ساز اس حد تک گونگے، بہرے بے حس ہو چکے ہیں کہ عالمی سطح پر اربوں انسانوں کے احتجاج، او آئی سی، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کروڑوں جنگ بندی کے لیے کیے جانے والے احتجاجوں پہلوں کے باوجود فلسطینیوں کو عالمی قصاب نیتن یاہو کے سپرد کیا ہوا ہے۔ اسرائیل نے ایک عالمی غنڈے، بدمعاش اور بدترین دہشت گرد نا جائز ریاست کا روپ دھارا ہوا ہے اور جو بائیڈن سمیت امریکی حکومت کے تمام ذمے داروں اور پالیسی سازوں کے ہاتھ مظلوم، بے کس، معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ تمام انسانیت کے سر شرم سے جھک گئے ہیں لیکن اگر کسی کو رتی بھر بھی شرم نہ آئی تو وہ جو بائیڈن اور امریکی انتظامیہ ہے جس کی پشت پنہاہی، بے پناہ امداد اور سپورٹ کی بدولت اسرائیل نے جدید تاریخ کی سب سے بڑی انسانیت سوز کاروائیوں سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے آج 11 مارچ 2024ء تک 115 دن ہو چکے ہیں۔ ایک سو پندرہ دنوں میں 31,500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 92 فی صد نہتے معصوم شہری ہیں۔ شہید بچوں کی تعداد 12,500 سے زائد ہے۔ ساڑھے چھے ہزار سے زائد خواتین شہید کی جا چکی ہیں۔ صحت سے متعلقہ ذمے دار اور رضا کار جو اسرائیلی حملوں میں اب تک ہلاک ہو چکے ہیں ان کی تعداد 300 سے زائد ہے، شہری دفاع کے ہلاک شدہ رضا کاروں کی تعداد 41 ہے، 113 سے زائد صحافی ہلاک ہو چکے ہیں، 62 ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں، ایک لاکھ سے زائد افراد گمشدہ ہیں جن کے متعلق یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ ان میں سے اکثر شہید ہوچکے ہیں۔ تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ 70 ہزار کے قریب گھروں کو مکمل طور پر جبکہ ایک لاکھ 83 ہزار 300 سے زائد گھر جزوی طور پر تباہ کردیے گئے ہیں۔ اسرائیل ایک سوچی سمجھی، پہلے سے طے شدہ اور انتہائی منظم کارروائیوں کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ اب تک 183 سے زائد صحت کی سہولتیں تباہ کی جاچکی ہیں جبکہ 23 اسپتال 60 کلینک 100 سے زائد ایمبولینس تباہ کی جا چکی ہیں جبکہ 238 مساجد 3 گرجا گھر اور 170 پریس آفس تباہ کیے جا چکے ہیں۔
اس قدر ہمالیائی تباہی، بربادی جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے اور جس انسان میں بھی خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، علاقے، رنگ یا نسل سے ہو اس کا سر شرم سے جھک گیا ہے اور امریکیوں کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی صدیوں تک اسرائیل کی اس حمایت اور پشت پناہی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاریخ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔
اسرائیل کی درندگی، ظلم اور فرعونیت سے تنگ امریکا کے ایک با ضمیر 25 سالہ فوجی ایرون بشنیل نے امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں احتجاج کے طور پر خود کو 25 فروری 2024ء کو آگ لگا کر امریکی انتظامیہ، حکومتی سرکردہ افراد اور پالیسی سازوں کے منہ پر ایک بھر پور طمانچہ رسید کیا ہے۔ اس نے اپنی خود سوزی سے قبل ویڈیو ریکارڈنگ میں اس بات کا اعلان کیا کہ وہ امریکا کے اس انسانیت سوز ظلم میں خاموش تماشائی بنا نہیں رہ سکتا اور عالمی انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسرائیل فلسطینی بچوں اور عورتوں کے خلاف فاسفورس بم استعمال کر رہا ہے جو انسانی جلد کو درد ناک طریقے سے جھلسا دیتے ہیں۔ بچے جل جل کر مر رہے ہیں لیکن امریکی حکومت نے اپنے ضمیر کو مار دیا ہے۔
ایرون بشنیل زندہ نہیں رہا لیکن وہ انسانیت کو جھنجھوڑ چکا ہے۔ ایک ارب 92 کروڑ مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر کے امن پسند، انسانیت دوست اربوں افراد فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم پر دکھی ہیں، دنیا کی کروڑوں ماؤں کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ اسرائیل کے لیے امریکا کی مدد اور مجرمانہ تائید ساری انسانیت کے لیے انتہائی شرم ناک ہے۔ بائیڈن کو نیتن یاہو کے ہمراہ تاریخ دان’’غزہ کے قصاب‘‘ کے نام اور لقب سے یاد رکھیں گے۔ انہیں اکیسویں صدی کے فرعون اور نمرود کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ فلسطین کی آنے والی نسلیں بھی بائیڈن اور نیتن یاہو کو انہی ناموں سے یاد رکھیں گی۔ برطانیہ کے رشی سوناک اور بھارت کے نریندر مودی کا شمار بھی اسی طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔
ایرون بشنیل کو ایک امن پسند اور انسانیت دوست امریکی، فلسطینیوں کے ہمدرد کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جبکہ ان مظالم پر خاموش رہنے والے ننگ انسانیت تاریخ کا سیاہ ترین باب مرتب کر رہے ہیں۔ بائیڈن، نیتن یاہو، مودی اور رشی سوناک کے مقدر میں ذلت لکھی جا چکی ہے۔ ذلت آمیز اور عبرت ناک انجام کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔