اسلامی معاشرہ میں

447

اسلام کے احکام اور قوانین ایک وقت میں کُل کے کُل نافذ نہیں کیے گئے بلکہ ان کا نفاذ اسلامی معاشرہ کی اخلاقی تربیت و ترقی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا روزے کی فرضیت میں بھی یہی تدریج نظر آتی ہے نبی کریمؐ نے ابتداء میں مسلمانوں کو ہر مہینے صرف تین دن کے روزے رکھنے کے ہدایت فرمائی تھی ان ہی میں عاشورہ کے دن کا روزہ بھی تھا یہ روزہ یہودی بھی رکھتے تھے مگر یہ روزے فرض نہیں تھے پھر اس حکم میں یہ رعایت رکھی گئی کہ جو روزہ نہ رکھے وہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے بعد میں آخری حکم نازل ہوا اور روزہ کو مریض، مسافر، حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ضعفاء کے سوا سب کے لیے لازم کردیا گیا۔

۲ھ میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن پاک میں نازل ہوا:- ’’اے ایمان لانے والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرؤں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔ (البقرہ)

یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ دنیا کے بیش تر مذاہب میں خواہ وہ آسمانی ہوں کہ مشرکانہ روزہ کی کوئی نہ کوئی شکل رائج رہی ہے خاص طور سے تمام صحف انسانی میں روزے کا حکم ملتا ہے۔ آگے قرآن میں روزے کا فائدہ بتایا گیا ہے:- ’’اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔

دوسرے مذاہب میں بھی روزے کی یہی غرض ہوگی کہ لوگوں کو اپنے آپ پر قابو پانے کی مشق ہوجائے۔ مگر ان مسخ شدہ مذاہب یا صحیح مذاہب کی مسخ شدہ تعلیمات میں روزے کا یہ مقصد واضح نہیں ہے کہ روزہ اللہ کے لیے تقویٰ پیداکرنے کے لیے رکھا جائے۔ تقویٰ کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی تمام ممنوع باتوں سے رک جائے و حرام کی حدود کا پابند رہے، ان سے تجاوز نہ کرے۔ یہ خدائی قانون ہے، اس کو زندگی میں برتنے ہی کے بعد اسلا م کی تکمیل ہوتی ہے اور روزہ اس کام میں مدد دیتا ہے کیونکہ روزہ میں حرام تو حرام اللہ کے حکم پر حلال تک کو ایک مقررہ وقت میں حرام کر لیا جاتا ہے، جب حلال تک کو چھوڑنے کی نفس میں آمادگی پیدا ہوجائے تو توقع رہتی ہے کہ وہ حرام کو بھی آسانی سے چھوڑ دے گا، جن سے رکنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور ان تمام کاموں کو کرنے کی روزہ کے ذریعے تربیت حاصل کرے جن کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ مختصراً یہ کہ اللہ کے حلال کو حلال، اور حرام کو حرام سمجھے۔ یہاں حلال و حرام کو صرف کھانے پینے تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسلامی شریعت میں حلال و حرام کی اصطلاحیں زندگی کے پورے مسائل و معاملات کے لیے وسیع ہیں اللہ کے دین کے مفہوم میں صرف شراب لحم خنزیر ہی حرام نہیں بلکہ وہ سارے نظریات و افکار اسلامی معاشرہ کے لیے حرام ہیں جو اللہ اور نبی کریمؐ کے دین کے خلاف ہیں ایک اسلامی مملکت میں ایسے تمام قوانین کو نافذ کرنا حرام ہو جاتا ہے جو قوانین کتاب و سنت کے بجائے کسی اور ماخذ سے لیے گئے ہیں اس طرح علم و اخلاق۔ فکر ونظر۔ دستور قانون۔ تہذیب و معاشرت۔ سیاست و معیشت۔ تجارت و کاروبار، تعلقات و روابط، صلح و جنگ، زندگی کے ہر معاملہ میں پسند و ناپسند حرام و حلال کا یہ امیتاز قائم ہوگا اور جب تک معاشرے کے افرد میں اس فرق و امتیاز کو قائم رکھنے کا ولولہ اور حلال و حرام کی حدود پر قائم رہنے کا مَلِکَہ پیدا نہیں ہوگا اللہ کا دین عملاً نافذ نہیں ہوسکتا۔ روزہ اسلامی معاشرہ کے افراد میں یہ جذبہ یہ مشق اور یہ سلیقہ پیدا کرتا ہے اس طرح رمضان ایک تربیت کا مہینہ ہے اس مہینے کے تربیتی نصاب سے فارغ ہونے کے بعد اسلامی معاشرہ کے اخلاق و عادات اور اس کے تمام تر معاملات میں حیرت انگیز تبدیلی نظر آتی ہے بشرطیکہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور اسلام ایک معاشرتی تحریک اور انقلابی قوت کی حیثیت سے کا رفرما ہو۔

اس سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے کہ روزوں کی مدت پوری کرنے کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ: جس ہدایت سے اللہ نے تمیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی مہربانی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (البقرہ)

اللہ کی مہربانی کا اظہار و اعتراف ایک تو زبان سے ہے کہ اس کی عظمت وکبریائی بیان کی جائے اور سب سے اچھا کلمہ اللہ اکبر ہے دوسرا عمل سے ہے کہ آدمی زندگی میں اللہ کا ایسا مطیع و فرمانبردار نظر آئے کہ اسے دیکھ کر ہی اللہ کی عظمت و کبریائی یاد آجائے اہل فرد کی طرح ایک معاشرہ میں اس اظہار و اعتراف کی صورت یہ ہے کہ اس ہدایت کو عملاً زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کیا جائے۔ اس اظہار و اعتراف کے بعد شکر گزاری کا مقام ہے کہ اس کے لیے بہترین کلمہ الحمدللہ ہے مگر عملاً شکر گزاری یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس ہدایت پر عمل کیا جائے۔ کیونکہ نعمت کا شکریہ ہے کہ اس نعمت کو آدمی اس مقصد کے لیے استعمال کرے جس کے لیے وہ نعمت عطا کی گئی ہے۔ اگر وہ نہیں کرے گا تو یہ گستاخی اور ناشکری ہوگی اور وہ اس نعمت یا اس کے فائدوں تک سے محروم رہ جائے گا۔