بعض دوست اور احباب اس امر پر معترض ہوتے ہیں کہ میں اپنی اکثر تحاریر میں حکومت سندھ پر کیوں تنقید کیا کرتا ہوں؟ میں جواباً یہ کہا کرتا ہوں کہ میری سندھ حکومت سے کوئی ذاتی ناراضی تو ہے نہیں کہ میں اس پر تنقید کروں۔ میرا مقصد تو صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نقارخانے میں خواہ توتی کی طرح میری آواز اور صدا پر کوئی بھی کان نہ دھرے، میں اپنے اردگرد موجود لوگوں کے مسائل اور مصائب پر توجہ مبذول کروانے کے لیے ’’کیے جائو تم کام مرے دوستو!‘‘ کے مصداق اپنے کام میں لگا رہوں۔ حکومت سندھ کے ذمے داران کی پالیسیاں اگر صحیح سمیت میں اور عوام دوستی پر مبنی ہوں، تو مجھے یا پھر سندھ کے پرنٹ، الیکٹرونک یا سوشل میڈیا کو بھلا کیا ضرورت ہے کہ ہم اس پر نکتہ چینی یا اس کے سرانجام دیے گئے امور میں کیڑے نکالتے پھریں؟۔ حالیہ متنازع ترین الیکشن کے انعقاد کے بعد سندھ میں لگاتار چوتھی مرتبہ بھی پی پی پی کی حکومت ہی قائم ہوئی ہے، تو ظاہر ہے کہ اتنے طویل عرصے اقتدار کے دوران جو بھی ’’اچھی یا بُری‘‘ حکومت سندھ کی کارکردگی رہی ہے تو لامحالہ اس کا سارا کریڈٹ بھی اسی کو دیا جائے گا۔ ویسے میں نے اُوپر بُری کے ساتھ اچھی کارکردگی کا ذکر بطور لحاظ اور وزن برائے بیت کے سبب سے ہی کیا ہے، ورنہ تو پی پی پی حکومت کی عدم کارکردگی صرف اہل سندھ یا اہل وطن پر ہی نہیں بلکہ ایک عالم پر آشکار رہے۔ یعنی ’’مجھ سے پہلے میری شہرت کے افسانے گئے‘‘ کی طرح کی صورت حال ہے۔
’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘‘ کے ماہ دسمبر 2023ء میں جاری کرپشن سروے نتائج کے مطابق عام افراد کی رائے ہے کہ سندھ میں محکمہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔ جبکہ سندھ میں غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد 37 فی صد اور بے روزگاری کی شرح 23 فی صد ہے۔ خود وزیرتعلیم سندھ کچھ عرصے پہلے برملا یہ اعتراف کرچکے ہیں سندھ کے اسکول اساتذہ میں سے لگ بھگ ایک لاکھ کو، جی ہاں ایک سو یا ایک دو ہزار نہیں بلکہ ایک لاکھ اساتذہ کو صحیح طریقے سے پڑھانا ہی نہیں آتا، کیوں کہ وہ سفارش یا رشوت کے بل بوتے پر بھرتی ہوئے ہیں اور بذریعہ نقل امتحانات میں پاس ہو کر انہوں نے سرکاری اسکول کے استاد کی ملازمت حاصل کی ہے۔ سندھ میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تعلیمی اداروں کی عمارت کھنڈر بنی ہوئی ہیں یا پھر ان میں علاقے کے وڈیروں کے مال مویشی باندھے جاتے ہیں۔ سندھ میں پی پی کے 15 سالہ دور حکومت میں شعبہ تعلیم میں جس میں 14 فی صد بہتری کا سندھ حکومت دعویٰ کیا کرتی ہے، ماہرین تعلیم تو اسے بھی بے حد مشکوک اور ناقابل قبول ٹھیرا رہے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی جو حالت زار ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سرکاری اسپتال ایک طرح سے بیمار افراد کے لیے مقتل اور سرکاری ڈاکٹر اور طبی عملہ ان میں قصائی اور فرعون بنے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ محکمہ خزانہ سندھ میں بدترین کرپشن کا عالم یہ ہے کہ صرف ضلع جیکب آباد کے ٹریژری آفس میں گزشتہ دنوں پنشن کی مد میں ایک ارب 31 کروڑ روپے کرپشن کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر 13 افسران اور ملازمین پر اینٹی کرپشن پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے۔ بعینہٖ صورت حال سندھ کے دیگر اضلاع کی بھی ہے۔ جہاں پر سندھ حکومت کے ذمے داران کی مبینہ سرپرستی میں اربوں روپے کی بدعنوانی کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔
سندھ کے سالانہ بجٹ میں ہر سال اربوں اور کھربوں روپے کی رقم مختص کرنے کا اعلان تو بڑے دھڑلے کے ساتھ کردیا جاتا ہے، لیکن اس سے سندھ کے ایک عام فرد کی زندگی میں کیا معاشی تبدیلی رونما ہوتی ہے؟ وہ اظہرمن الشمس ہے۔ گزشتہ برس 2023ء کے ماہ جون میں پیش کردہ بجٹ میں تعلیم کے لیے 353 ارب روپے، صحت کے لیے 214 ارب روپے، کراچی کے میگا پروجیکٹس کے لیے ساڑھے 12 ارب روپے اور محکمہ پولیس سمیت امن وامان کی بہتری کے لیے تقریباً پونے 2 سو ارب رکھے گئے تھے لیکن کیا کسی بھی شعبے میں کوئی معمولی بہتری بھی دکھائی دی ہے۔ یہ تو اسی صورت میں ممکن تھا کہ اگر مختص کردہ اربوں روپے کی رقم واقعتا انہی منصوبوں پر خرچ بھی کی جاتی، خود حکومت سندھ کے ذمے داران یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین سے ریٹائرمنٹ کے وقت محکمہ خزانہ کے ملازمین پنشن جاری کرنے اور دیگر واجبات کی مد میں ریٹائر ملازم سے مجموعی رقم پر 35 تا 40 فی صد تک بھی کمیشن بطور رشوت طلب کرتے ہیں۔ اگر کوئی نہ دے تو کئی کئی سال تک اس ملازم کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ سرکاری ٹھیکوں میں بمشکل 20 تا 30 فی صد رقم ہی روڈ راستوں یا سرکاری تعمیرات میں خرچ ہوتی ہے باقی ساری رقم مل بانٹ کر ہڑپ کرلی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں؟ جیسی عکاسی کرتا ہوتا ایک بہت بدنما اور ہولناک منظرنامہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق سندھ میں 6.5 ملین بچے اسکول نہیں جاتے، جو مزدوری کرتے ہیں یا پھر آوارہ گردی۔ 1.7 ملین غلام مزدور ہیں جو جبری مزدوری کررہے ہیں۔ جبکہ 7 ملین سے بھی زائد بچے اور بچیاں جبری مزدوری پر مجبور ہیں۔ بظاہر تو اصلاح احوال کی کوئی بھی صورت دکھائی نہیں دیتی۔