بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی قانون

525

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اس بات پر خوش ہیں ان کو جعلی انتخابات میں کامیابی پر بھارتی وزیر اعظم مودی نے مبارک باد دی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف بھارت سے دو طرفہ دوستی میں اضافے اور تجارت بڑھانے کے لیے مذکرات شروع کر نے کا انتظار کر رہے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے انتخابات کا یہی فرق ہے کہ بھارتی الیکشن کا مرکزی خیال پاکستان اور بھارتی مسلمانوں پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مقیم مسلمان بھارتی ہندوئوں کے دشمن ہیں۔ اس منفی شور اور ہنگاموں کو انتخاب میں کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس بات میں شاید حقیقت ہو کہ یہ سب کچھ بی جے پی اور بعد میں مودی حکومت نے شروع کیا لیکن سچائی یہ ہے کہ قبل ازیں کانگریس بھی الیکشن سے قبل پاکستان کے خلاف خوب تماشا کرتی تھی اور اسی سوچ نے پاکستان کے ایک حصے کو بنگلادیش بنا دیا۔ بھارت میں انتخابات سے قبل یہ افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ بھارتی حکومت انتخابات سے قبل ایک سُپر ایٹمی دھماکے کا بھی کر نے پلان بنا رہی ہے۔ یہ دھماکہ جدید ترین اور بہت بڑی تباہی کر سکے گا۔ اس سے قبل شہریت (ترمیمی) ایکٹ، 2019 کے قوانین کو نافذالعمل کردیا ہے۔ ان قوانین میں پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان میں مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت میں پناہ لینے والے مہاجرین کو بھارتی شہریت دینے کا حق دیا گیا ہے۔ کیا یہ قانون مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچائے گا؟۔

اس سلسلے میں مسلمان گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون، شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کر، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر سکتا ہے۔ بھارتی حکومت اس کے مسلم مخالف ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مسلمان اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔ بھارتی اخبارات کے مطابق بھارتی حکومت کے شہریت کے ترمیمی ایکٹ سی اے اے کے خلاف آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کا گوہاٹی میں 11 مارچ 2024 کو ایک مظاہرہ بھی ہوا ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس ایکٹ سے سب زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ آسام کی مسلمان آبادیوں کو ہو سکتا ہے، آسام کی صوبائی حکومت پہلے ہی تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے۔ آسام کی صوبائی حکومت کو کہنا ہے کہ ’’آل آسام اسٹوڈنٹس یونین‘‘ کا تعلق آسام سے لگے بنگلادیشی شہر سلہٹ کی اسلامی تحریک سے ہے۔

سی اے اے پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کے لیے شہریت کی راہ ہموار کرتا ہے جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آئے تھے۔ اس قانون کے ساتھ، مودی حکومت اب تینوں ممالک کے غیر مسلم تارکین وطن – ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دینا شروع کر دے گی۔ مسلمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ میانمر کی طرح بھارت میں مسلمانوں کو ’’قومی رجسٹر یشن‘‘ کے نام پر پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان کا شہری قرار دیکر بھیجنے کی کو شش شروع کر دی جائے گی۔

بھارت کی حکومت کی جانب سے شہریت کے ترمیمی قانون ’سی اے اے‘ کے نفاذ کے اعلان پر امریکا، اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افغانستان میں برسر ِ اقتدار طالبان نے بھی اظہار تشویش کیا ہے اور اسے امتیازی قانون قرار دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکا 11 مارچ کو کیے جانے والے سی اے اے کے سرکاری اعلامیے پر تشویش میں مبتلا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی ترجمان نے ایک ای میل پیغام میں کہا کہ مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام برادریوں کے ساتھ مساوی سلوک جمہوری اصولوں کی بنیاد ہے۔ بھارت نے امریکا کے اس بیان کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ 14مارچ کو وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سی اے اے شہریت دینے والا قانون ہے لینے والا نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے ایک ترجمان نے کہا ’’جیسا کہ ہم نے 2019 میں کہا تھا کہ سی اے اے بنیادی طور پر امتیازی قانون ہے اور بھارت پر جو بین الاقوامی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ ترجمان کے مطابق اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس کے نفاذ کے ضابطے عالمی قوانین کے مطابق ہیں یا نہیں۔

دوسری طرف افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے پہلی بار اس معاملے پر کوئی ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ دوحا میں طالبان کے ترجمان اور اس کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے بھارت کی ایک نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ سے گفتگو میں کہا کہ کوئی بھی قانون بلا امتیاز ہر مذہب افراد کے لیے ہونا چاہیے۔ سی اے اے قانون سب پر نافذ ہونا چاہیے خواہ وہ مسلمان، ہندو سکھ یا کوئی بھی ہو۔ افغانستان میں اقلیتوں پر مظالم کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی کی آزادی ہے اور وہاں کے قانون کے مطابق ان کو بھی مساوی حقوق حاصل ہیں۔ افغانستان میں ہندوؤں اور سکھوں پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے بھارت کی مسلم اقلیت پر بھی کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بھی کہا ہے کہ سی اے اے کا نفاذ مساوات اور مذہبی عدم امتیاز کی آئینی اقدار کے لیے ایک دھچکا ہے اور انسانی حقوق کے تعلق سے بھارت کی عالمی ذمے داریوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ سی اے اے ایک متعصبانہ قانون ہے جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا جواز فراہم کرتا ہے اور اسے کبھی بھی نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کا نفاذ بھارتی حکومت کی جانب سے ملک بھر کے عوام، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کے احتجاج اور مخالفت کو نظر انداز کرنا ظاہر کرتا ہے بھارت عالمی دباؤ کو یکسر نظر انداز کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے دسمبر 2019 میں حزبِ اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اس قانون کو منظور کرایا تھا۔ ایکٹ کے خلاف ایک بار پھر جامعہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جامعہ کے وائس چانسلر کی جانب سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔کانگریس کی طلبہ تنظیم ’نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا‘ (این ایس یو آئی) اور ’مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ایم ایس ایف) سے وابستہ طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس میں سی اے اے کے خلاف نعرے لگائے۔ بھارت نے امریکا کو اس سلسلے میں سخت جواب دے کر خاموش کر دیا اور توقع یہی ہے کہ بس کچھ دن کا شور ہے اور اس کے بعد بھارت میں مودی کا بول بالا اور 2024ء کے انتخاب میں مودی ایک مرتبہ پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائے گا۔ پاکستان میں بھی تو ایسا ہی ہوا ہے تو بھارت پر کیوں اعتراض کیا جائے؟