وزیر قرضہ جات کا نزول

691

خبر یہ ہے کہ کمالیہ سے تعلق رکھنے والے نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رمدے سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان چودھری فاروق رمدے مرحوم کے بیٹے، سابق جج عدالت عظمیٰ جسٹس خلیل الرحمان رمدے کے بھتیجے اور داماد، سابق وفاقی وزیر و ایم این اے مسلم لیگ ن چودھری اسد الرحمان کے بھتیجے کی پاکستانی شہریت کی درخواست قبول ’’کروا لی‘‘ گئی ہے۔ وفاقی کابینہ نے نیدرلینڈز کے شہری اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی پاکستانی شہریت دوبارہ حاصل کرنے کی درخواست منظور کرلی ہے۔ یاد رہے کہ قوم پر نازل کیے جانے والے نئے نویلے وزیر قرضہ جات فارم 45 اور فارم 47 کے تکلف سے بھی پاک ہیں یعنی یہ نہ منتخب ہیں اور نہ ’’چنے ہوئے‘‘ نیدر لینڈ سے نزول ہوا ہے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ جب فارم سنتالیس آسانی سے وافر مقدار میں دستیاب تھا اور ہے تو اس ’’رشتہ دار‘‘ سقراط کا نام کیوں اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ ابھی بھی کوئی حرج نہیں ان کے نام کا ایک فارم جاری کردیں۔ کون پوچھتا ہے اس اندھیر نگری میں۔
قحط الرجال کا شکار کنگال نون لیگ کے پاس کرشماتی فارم سنتالیس کے ذریعے منتخب کروائے گئے ارکان میں کوئی وزارت قرضہ جات (عرف وزارت خزانہ) کا اہل نہیں تھا کہ اس بندے کو لینا پڑگیا۔ ہدیہ کی گئی حکومت سنبھالتے ہی نون لیگ کے پیشوا بڑے شریف نے خوشخبری دی تھی کہ دو سال مشکل ہوں گے۔ اب ’’نازل ہونے والے‘‘ معاشی امور کے سقراط بینکر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے عوام کو پہلی وعید سناتے ہوئے کہا ہے کہ رواں مالی سال مشکل ثابت ہوگا۔ اپنے ایک بیان میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام پاکستان کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ: ’’صدر مسلم لیگ ن پنجاب رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ 25 کروڑ عوام کو علم ہونا چاہیے کہ مہنگائی کے ہم ذمے دار نہیں جو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کا دعویٰ کرتا تھا اس نے ایسے معاہدے کیے جس سے عوام پر مہنگائی کے بم گرنا شروع ہوگئے ہیں‘‘۔
تیسری خبر یہ ہے کہ فارم 47 کے تعویذ کی برکات سے چنی گئی اسمبلیوں سے ’’منتخب‘‘ کرائے جانے والے پاکستان کے نیک نام صدر نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ سارے سقراطوں کے پاس ہمارے موروثی معاشی مسائل کا حل ایک ہی ہے اور وہ ہے قرضے قرضے اور قرضے۔ نیازی ہو نوازی ہو یا زرداری آئی ایم ایف کی غلامی ان سب کی قدر مشترک ہے۔ چالیس سال سے ملک پر مسلط ٹبر لیگ کے لیے شرمناک امر ہے کہ 47 کے تحت چنے ہوئے لوگوں میں سے کوئی ایک بھی بندہ وزارت خزانہ چلانے کے لیے اہل نہیں سمجھا گیا۔ وزارت خزانہ چلانا کوئی مشکل بھی نہیں۔ بس آئی ایم ایف سے تجدید غلامی کرنی تھی اور قرضوں کی بھیک مانگنی ہوتی ہے۔ جو کام اتنا مہنگا وزیر کرے گا ہمارے وزیراعظم پہلے ہی اس میں بہت تجربہ رکھتے ہیں۔
وزارت قرضہ جات اوزیراعظم صاحب اپنے پاس رکھ لیتے تو کچھ خرچہ کم ہوجاتا۔ ضمناً عرض ہے کہ اب وزارت ِ خزانہ کا نام بھی حسب حال تبدیل کر لینا چاہیے۔
بدقسمت قوم کن لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے کہ باہر سے نازل کیے جانے والے اور گملوں میں اٹھائے جانے والوں میں سے کوئی وزیر یہ نہیں بتاتا کہ اس کے پاس ملکی زراعت کی بہتری کے لیے کیا منصوبہ ہے، صنعت کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ برامدات کس طرح بڑھائی جائیں گی۔ قرضے بڑھانے کی بات سب کرتے ہیں یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ملکی اور بین الاقوامی قرضوں کا بوجھ کم کیسے کرنا ہے۔ سب کو علم ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیاں ہماری معیشت کو بہتر کرنے کے لیے نہیں، اپنا دست نگر بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ دنیا میں کسی ملک نے آئی ایم کے پروگرام سے کبھی ترقی نہیں کی۔ کھوکھلی قیادتیں، کھوکھلے سلیکٹرز، کھوکھلی سیاسی پارٹیاں آئی ایم ایف کی سرپرستی میں اپنے گھنائونے فیصلوں سے ملکی معیشت کو تیزی سے بربادی کی طرف لے جارہی ہیں۔ سلیکٹرز اس ملک اور بے بس قوم پر رحم کرنے کو تیار نہیں۔