بھارت میں انتخابات سے عین قبل شہریت کے متنازع ترمیمی قوانین کا نفاذ عمل میں آگیا ہے۔ بھارت کی بے جے پی حکومت نے پانچ سال قبل پارلیمنٹ میں اکثریت کے بل بوتے پر یہ قانون منظور کیا تھا اور اس کے خلاف مسلمانوں نے بہت زوردار احتجاج بھی کیا تھا۔ اس احتجاج کے باعث یا انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی سوچ کے تحت قانون کے نفاذ کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا تھا۔ مسلم تنظیموں نے ان قوانین کو عدالتوں میں چیلنج بھی کر رکھا ہے۔ سی اے اے کے نام سے شہریت کے اس ترمیمی قانون کا مقصد ایسے غیر مسلم شہریوں کو بھارت کی شہریت دینا ہے جو بنگلا دیش، پاکستان، افغانستان یا کسی اور ملک سے 2014 کو یا اس سے قبل بھارت میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس فہرست میں اگر کوئی نام شامل نہیں تو وہ مسلمان ہیں۔ اس طرح یہ ایک ایسا قانون ہے جس میں مسلمانوں کا واضح طور پر الگ کر دیا گیا ہے۔ اس عرصے میں جو مسلمان بھارت میں داخل ہوں گے انہیں اپنا سارا ریکارڈ ثابت کرنا ہوگا اور قانون کا اطلاق ازخود ان پر نہیں ہوگا اور اگر وہ اپنا مقدمہ نہ جیت سکے تو انہیں حراستی مراکز میں منتقل کیا جائے گا۔
اس انداز کی قانون سازی سے مسلمانوں کا ماتھا ٹھنکا تھا اور انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا تھا کہ بھارت کی ریاست انہیں مذہب کی بنیاد پر دیوار سے لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ مسلمان راہنمائوں کا اندیشہ ہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے شہریتی قوانین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے لائے گئے ہیں۔ مسلمان راہنما اسد الدین اویسی نے ان قوانین پر تنقید کرتے ہوئے ہوئے کہا ہے یہ گاندھی کے قاتل گوڈسے کی سوچ کے آئینہ دار ہیں جو مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کا نظریہ رکھتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سترہ کروڑ مسلمانوں کو بے وطن کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ صرف ایک آسام کی ریاست میں سروے کے نتیجے میں سترہ لاکھ لوگوں کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی ان میں بارہ لاکھ کے قریب ہندو جبکہ ڈیڑھ سے دولاکھ مسلمان ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا ہے شہریت سے محروم ہونے والے ہندو اس قانون کے تحت دوبارہ بھارت کے شہری بن جائیں گے مگر مسلمانوں کا نام قانون کا حصہ نہیں اس لیے انہیں اپنی شہریت بحال کرانے کے عدالتوں کے چکر کاٹنا اور دستاویزات کے گورکھ دھندوں میں اُلجھنا پڑے گا۔
شہریت کے یہ قوانین حقیقت میں بھارت کے اندر تقویت پکڑنے والی انتہا پسند سوچ اور ذہنیت کے عکاس ہیں۔ شہریت کے قوانین میں سے ایک مخصوص مذہب کو غائب کرنا اسی خطرناک سوچ کا عکاس ہے۔ مسلمان اس خطرے کو بھانپ گئے ہیں۔ انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ آج جن قوانین کو محض نئی شہریت کے معاملے میں استعمال کیا جا رہا ہے آنے والے دنوں میں یہ ہندوستان میں صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ آسام کی ریاست میں ان قوانین کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ چل نکلا ہے اور مودی حکومت کو اندازہ ہے کہ دہلی سمیت دوسرے علاقوں میں بھی مسلمان ان متعصبانہ قوانین کے خلاف ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکنا کر دیا گیا ہے اور انتظامی افسروں نے شاہین باغ کا دورہ بھی کیا ہے۔ شاہین باغ وہی مقام ہے جہاں پانچ برس قبل ان قوانین کے خلاف بھارت بھر کی خواتین نے طویل عرصے تک دھرنے کی شکل میں ایک تاریخی احتجاج کیا تھا۔ بعد میں بھارتی حکومت نے طاقت کا سہارا لے کر اس احتجاج کو ختم کروایا تھا۔ شہریت کے نئے قوانین مسلمانوں کے لیے مصیبتوں اور بلائوں کا ایک پنڈورہ باکس کھلنے کے مترادف ہے۔ ان قوانین کے تحت کسی بھی مسلمان کی شہریت پر اعتراض ہوگا تو اسے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے داد کا برتھ سرٹیفکیٹ دکھانا پڑے گا۔ مسلمان راہنمائوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں 1959 تک برتھ سرٹیفکیٹ لازمی نہیں تھا 1996 تک بھارت میں صرف نصف آبادی کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ موجود تھا۔ ایسے میں آج کے شہری دادا کا برتھ سرٹیفکیٹ کہاں سے لائیں گے۔ یوں مقصد مسلمانوں کی آبادی کو رفتہ رفتہ بھارتی کے ڈھانچے سے یا تو نکال باہر کرنا ہے یا انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا کر اور اعتماد سے محروم کر کے رکھنا ہے۔ بظاہر نریندر مودی ان قوانین کو انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں مگر حقیقت میں یہ وقتی اور انتخابی کارڈ نہیں بلکہ دور رس اور تباہ کن اثرات کی حامل متعصبانہ سوچ پر عمل درآمد ہے۔ یہ سوچ تو بھارت میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے مگر اب اسے قوانین کی سرپرستی اور مدد حاصل ہو گئی ہے۔