’’سب کو سب پتا ہے‘‘

593

سابق صدر آصف علی زرداری پر قسمت ایک مرتبہ پھر سے مہربان ہوئی ہے اور وہ مقتدر حلقوں کی رضا مندی سے پاکستان کے صدر مملکت کے عہدے جلیلہ پر اگلے پانچ برس کے لیے فائز ہوگئے ہیں۔ انہیں یہ منصب مبارک ہو، لیکن اس امر کا کیا کیا جائے کہ خود ان کا اپنا صوبہ سندھ گزشتہ کئی عشروں سے حد درجہ بدامنی، بدعنوانی اور بدانتظامی کی ایک ایسی بدترین آماج گاہ بنا ہوا ہے جس کی کوئی اور دوسری مثال اور نظیر ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتی۔ صوبہ سندھ میں اب کی بار بھی پی پی پی قیادت کے من چاہے اور لاڈلے سید مراد علی شاہ تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ منتخب ہوئے ہیں اور موصوف نے اس مرتبہ بھی اپنی کابینہ میں انہی پرانے اور ازکار رفقہ چہروں کو لیا ہے جو گزشتہ ایک عرصے سے اہل سندھ کے لیے کوئی خاص کام نہیں کرسکے ہیں۔ ہاں البتہ! یہ ضرور ہوا ہے کہ ان کی وزارتوں کے قلم دان اس بار تبدیل کردیے گئے ہیں، ساری دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہے جبکہ اس کے یکسر برعکس ہم بجائے عروج کے تیزی سے زوال کی سمت لڑھکتے چلے جارہے ہیں۔ خصوصاً صوبہ سندھ کے حالات میں کوئی بہتری آنے کے بجائے روز بروز کہتری ہی آرہی ہے۔

حکومت کی قائم کردہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں نام نہاد ہیں اور ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں جس طرح سے منافع خور اور ذخیرہ اندوز عناصر نے من مانے انداز میں اضافہ کردیا ہے اس کی وجہ سے پہلے ہی سے مہنگائی کے ہاتھوں متاثرہ عوام نے اپنا سر پکڑ لیا ہے۔ وفاقی یا سندھ کی صوبائی حکومت کا کسی بھی چیز پر کوئی بھی کنٹرول نہیں ہے۔ ہر ضلع کی سرکاری انتظامیہ خواب غفلت میں کھوئی ہوئی ہے یا پھر کرپشن میں مصروف ہے۔ عوام کے جان اور مال کے تحفظ کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن گزشتہ ایک طویل عرصے سے صوبہ سندھ شدید ترین بدامنی سے دوچار ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ صوبہ سماج دشمن عناصر، ڈاکوئوں، چوروں، قاتلوں اور لٹیروں کے لیے گویا ایک طرح سے ’’محفوظ پناہ گاہ‘‘ بن چکا ہے۔ کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔ یوں گمان گزرتا ہے کہ ہمارے صوبے میں مہنگائی، بدعنوانی اور بدحکومتی میں تو خوب خوب ہر دور میں ترقی ہوئی ہے لیکن مقابلے کی اس دوڑ میں بدامنی ہمیشہ سب سے آگے رہی ہے۔ اس وقت بھی درجنوں مغوی گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور اور دیگر اضلاع کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے شکنجے میں ہیں جن پر ڈاکوئوں کی جانب سے کیے جانے والے بہیمانہ تشدد کی ویڈیو خود انہی کی جانب سے وائرل کی جارہی ہیں تا کہ انہیں سوشل میڈیا پر دیکھ کر مغویوں کے ورثا ڈاکوئوں کو تاوان کی بھاری رقم ادا کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ان مغویوں میں بچے بھی ہیں اور بڑے بھی۔ کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مغوی بھی ہیں۔ حتیٰ کہ ماضی قریب میں بدنہاد ڈاکوئوں کے زیر قبضہ خواتین مع کم سن بچیوں کے قید رہی ہیں۔ متعدد ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے مغوی بھی ہیں۔

مقام حیرت ہے کہ اتنی شدید بدامنی اور ’’ڈاکو راج‘‘ کے باوجود وفاقی، صوبائی حکومت، پولیس، انتظامیہ یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں بھی اپنا اصل کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ صدر آصف زرداری جو صدر بننے پر مبارکبادیں وصول کرتے پھر رہے ہیں انہیں بھی اپنے آبائی صوبے کی کوئی بھی فکر نہیں ہے۔ حالاں کہ انہیں بھی سب پتا ہے کہ کہاں پر کیا ہورہا ہے۔ افسوس ہے ایسے عہدوں اور اختیارات پر جو عوام کے دکھوں کا مداوا اور درماں تک نہ بن سکے۔

ہفتہ رفتہ دو بے حد المناک واقعات بلکہ سانحات رونما ہوئے ہیں۔ شکارپور سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ نوجوان ٹریکٹر مکینک عبدالرافع سمیجو جو بیمار بھی تھا اسے ڈاکوئوں نے بہ غرض تاوان اغوا کرلیا اور اس پر تاوان وصولی کے لیے بہیمانہ تشدد کیا، بیمار مغوی تشدد اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ گیا جس کی نعش انہوں نے کچے کے علاقے میں پھینک دی۔ اس کے دوسرے دن گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں نے ایک مغوی کو بہیمانہ تشدد کرکے قتل کردیا اور نعش روڈ پر پھینک کر چلے گئے۔ قابل مذمت امر یہ ہے کہ ان دونوں سانحات پر سندھی پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر تو شدید اظہار افسوس کیا گیا ہے لیکن وفاقی، صوبائی یا متعلقہ محکموں کے ذمے داروں کے کانوں پر محاورتاً نہیں حقیقتاً بھی کوئی جوں تک نہیں رینگی ہے۔ محکمہ پولیس، انتظامیہ یا قومی، صوبائی اسمبلی کے کسی منتخب نمائندے نے مقتولین کی نماز جنازہ میں شرکت تو کجا ان کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار تک کرنا گوارا نہیں کیا ہے۔ گویا ہم کسی جنگل کے معاشرے کے مکین ہیں اور ہم پر بے رحم اور درد دل سے عاری حکمران مسلط ہیں۔

کل ہی تمام سندھی اخبارات میں یہ خبر نمایاں انداز میں چھپی ہے کہ عقیل احمد عباسی چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے شکارپور، سکھر اور کندھ کوٹ میں مختلف تقریبات سے دوران خطاب ارشاد فرمایا ہے کہ سندھ کا امن تباہ ہوچکا ہے۔ کچے میں جدید ترین ہتھیار ڈاکوئوں کو کون پہنچارہا ہے؟ یہ دیکھنا پڑے گا، کندھ کوٹ میں امن وامان کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہے، کندھ کوٹ آرہا تھا تو ایک جج صاحب نے فرمایا کہ آپ کندھ کوٹ جارہے ہیں جو ایک نوگو ایریا ہے، مجھے خبر پڑی ہے کہ ڈاکوئوں نے ایک مغوی کو قتل کردیا ہے جو بے حد افسوس ناک واقعہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سب کو سب کچھ پتا ہے لیکن کوئی بھی سرکاری ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں سندھ حکومت نے امن وامان کی بحالی کے لیے 143.865 ارب روپے سمیت کئی ارب روپے مزید بھی اس حوالے سے مختص کیے ہیں۔ تاہم اہل سندھ ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہیں اور ان کو تحفظ دینے والا کوئی بھی نہیں ہے۔