پاکستان کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور آتی رہیں گی۔ دائیں والے بائیں طرف چلے گئے ہیں اور بائیں والے دائیں طرف آگئے ہیں اور قوم پرست سیاست سویت یونین کے خاتمے کے بعد حیران اور پریشان ہوگئی ہیں۔ ان کا ہر قدم وقت کے ساتھ بدلتا چلا جارہا ہے اور اس میں ٹھیرائو ختم ہوگیا ہے اور مفادات کی اسیر ہوگئی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بہت کچھ پس پردہ ہورہا تھا وہ اب سامنے آگیا ہے کن قوتوں نے شطرنج کا کھیل شروع کیا تھا۔ ایک اشارے پر بازی کھیلی گئی اور عمران خان کو چلتا کیا، بلوچ اور پشتون قوم پرست پارٹیاں جس طرح استعمال ہوئی ہیں ماضی قریب اور بعید میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلم لیگ کا اسٹیج ان کے لیے کھول دیا گیا، صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کی تمام پارٹیاں مسلم لیگ کے اسٹیج سے عمران خان کے خلاف نعرہ زن تھیں اور پھر دیکھتے دیکھتے عدالت عظمیٰ کو فیصلہ سنانے سے روک دیا گیا اور مسلم لیگ کے کہنے پر یا کسی ان دیکھی قوت نے مولانا فضل الرحمن کو استعمال کیا وہ تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ مولانا کا ڈنڈا بردار لشکر عدالت عظمیٰ کی حدود کو پھلانگتا ہوا حملہ آور ہوا اور فیصلہ نہیں سنانے دیا گیا۔ یہ کھیل تھا اور مولانا فضل الرحمن کو پوری آب و تاب کے ساتھ استعمال کیا اور مولانا اس خوش فہمی میں تھے کہ وہ صدر پاکستان کی حیثیت سے جلوہ گر ہوں گے مگر چند ساعتوں کے بعد نیا کھیل شروع ہوگیا اور عام انتخابات کا اعلان ہوگیا اور مولانا اکیلے ہوگئے۔ مسلم لیگ اور پی پی پی نے سبز جھنڈی دکھا دی اور مولانا فضل الرحمن کا ساتھ چھوڑ دیا اور علٰیحدہ علٰیحدہ انتخاب میں چلے گئے۔ عمران خان نے صوبہ سرحد میں قدم جمالیے تو مولانا سو وہ اکیلے رہ گئے ہیں اور انہیں شکست نظر آنے لگی، انہوں نے بلوچستان میں پناہ لی اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور محمود خان اچکزئی سے دست تعاون طلب کیا اور وہ یوں قومی اسمبلی کی نشست پر جیت گئے۔ پی ٹی آئی نے ان کی 60 سالہ سیاست کا خاتمہ کردیا اور صوبہ سرحد میں وہ اجنبی بن گئے۔ اور صوبہ سرحد میں پی ٹی آئی نے حکومت بنالی اور جب صدارتی انتخابات کا مرحلہ شروع ہوگیا تو وہ اس کھیل سے باہر کھڑے تھے اور انہوں نے محمود خان اچکزئی کی حمایت نہیں کی اور یوں انہوں نے سیاست کا ایک دروازہ کھلا رکھا تا کہ آگے چل کر پی پی پی سے مفاہمت ہوسکے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ مولانا کو اس کھیل سے باہر کھڑا کردیا۔ اب وہ نہ تین میں ہیں نہ تیرا میں۔ اب اُن کی سیاست ایک لحاظ سے ہچکولے کھا رہی ہے۔ حزب اختلاف کی مسند اب عمران خان کے پاس ہے، صوبہ بلوچستان میں 10 سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں، یہ سیاست کہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں ان کی پارٹی کا کوئی عالم دین منتخب نہیں ہوا ہے نہ تاجر اور صاحب حیثیت لوگ جیت گئے۔ مولانا واسع ہار گئے ہیں اب جمعیت علما اس سے زیادہ پریشان اور حیران ہے کہ سیاست کے کھیل سے انہیں باہر دھکیل دیا گیا اور انہوں نے درپردہ جو کھیل جنرل باجوہ کے ساتھ کھیل رہے تھے اس کو بھی بے نقاب کردیا۔ اس کھیل میں قوم پرست پارٹیاں موجود تھیں جہاں مولانا محمود خان کو ووٹ نہیں دیا وہاں نیشنل پارٹی تھی صدارتی انتخاب میں تقسیم ہوگئی ان کے ممبروں نے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دیا ان میں سینیٹر طاہر بزنجو اور اکرم دشتی شامل تھے اور دوسری طرف ڈاکٹر عبدالمالک اور رحمت بلوچ خیر خان بلوچ نے ووٹ دیا اور قومی اسمبلی کی خاتون رکن پھلیں بلوچ نے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا۔ عبدالمالک ابتدا میں محمود خان کو ووٹ دینا چاہتے تھے بعد میں وہ بدل گئے۔ انہوں نے اپنی رائے کیوں بدلی۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ چمک کام کرگئی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے عبدالمالک سے گلہ کیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ شاید کیلے کے چھلکے پر پھسل گئے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے صدارتی انتخاب کے حوالے سے کہا ہے کہ کچھ جماعتیں پھسل گئی ہیں اور کہا کہ ہم نے وعدے کے مطابق اپنا وعدہ پورا کیا اور اچکزئی صاحب کو ووٹ دیا اور کہا کہ اس انتخاب میں جھرلو استعمال ہوا ہے اور پیسوں کی چمک نے بھی اپنا کام کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم نے عبدالصمد خان اچکزئی کے فرزند کو اہمیت دی ہے۔ پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ چند سیاسی جماعتیں وعدہ کرکے پھسل گئیں، ہم نے پشتون بلوچ اتحاد کو اہمیت دی ہے اور تاریخ رقم کی ہے۔ بلوچستان سے آصف علی زرداری کو 47 ووٹ ملے اور خیبر پختون خوا سے 17 ووٹ ملے۔ جماعت اسلامی اور حق دو تحریک ارکان اسمبلی نے ووٹ نہیں دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے دور حکومت کو کیسے پورا کرتے ہیں۔