کمانڈ اسٹک

393

قانون کی رٹ ہو یا معیشت کی بدحالی، بے امنی کا راج ہو یا بے روزگاری کا راگ، مہنگائی کا رقص ہو یا سیاسی بحران مملکت خداداد پاکستان بند گلی میں ہے، راستے کی تلاش میں بھٹک اس لیے رہا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کو فراموش کر بیٹھا ہے اور خوف خدا کے حامل کی حکمرانی کے بجائے نفسانی خواہشوں کی غلامی ہے۔ قرآن پاک میں ہے جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے راستہ نکالے گا۔ (سورۃ طلاق)

یوں وزیراعظم شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب کے بعد ملک کی طاقتور ترین شخصیت آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر نے پی پی پی وزارت عظمیٰ کے خواہش مند بلاول زرداری سے مصافحہ کیا تو یہ روایتی ہرگز نہ تھا کہ ہتھیلیوں سے ہتھیلی ملی ہو بلکہ آرمی چیف نے مضبوطی سے ہاتھ پکڑا تو بلاول کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی گئی جو اس بات کی علامت بھی ہوتی ہے کہ وزارت کے نہ ملنے کا ملال ہرگز نہیں مگر کیا ہاتھ پکڑ کر آرمی چیف نے اُن کو ہمت سے اس صدمہ کو برداشت کرنے اور ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ کے مصرع کی یاد دہانی کرائی اور پھر دوسری اہم بات اس فوٹو سیشن میں بھی یہ دیکھی گئی کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے دوسرے ہاتھ کمانڈ اسٹک بھی تھی کمانڈ اسٹک کی ایک بڑی اہمیت ہے مرحوم صدر پرویز مشرف نے جب وردی اُتار کر کمانڈ اسٹک آرمی چیف کے حوالے کی تو اُن کے چہرے پر ملال نمایاں تھا کیوں کہ وہ کمانڈ اسٹک کی ہیبت قوت سے بخوبی آشنا تھے۔ بلاول سے بوقت ملاقات جہاں حوصلہ بڑھانے والی سمجھی گئی وہاں یہ بھی جتایا گیا کہ ’’اسٹک‘‘ سے کام بھی گڑبڑ کی صورت میں لیا جاسکتا ہے اس مرحلے میں آصف زرداری کی ہنسی بھی اس ملاقات کے مفہوم سے آشنائی کی تھی۔

بلاول وزیراعظم نہ بن سکے آصف علی زرداری کی اپنے فرزند بلاول کو وزیراعظم بنانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی تو یہ بھی کسی سیانے نے خوب کہا کہ ضرورتیں تو پوری ربّ کردیتا ہے خواہشیں بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ سو سیاسی ضرورت تو یوں پوری ہوگئی کہ سابق صدر آصف علی زرداری پھر صدر ہوگئے اس حلف برداری کی تقریب کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 263 ویں کورکمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس کے بعد اعلامیہ میں کہا گیا کہ فوج کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہ تھا اور 9 مئی کے کرداروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس اعلامیہ میں جہاں انتخابی عمل کا ہاتھ آرمی چیف نے خوب صورتی سے خوشنودی سے پکڑا وہاں 9 مئی کے کرداروں کو کمانڈ اسٹک سے ہانکنے اور قانون کے کوڑے سے پیٹنے کی بات بھی کہہ ڈالی۔ اس طرح آرمی چیف نے کہا کہ انتخابی عمل سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں تو سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی جواباً کہا کہ میں کورکمانڈرز کانفرنس اعلامیہ کی تائید کرتا، 9 مئی میں ملوث ملزمان کو سزا ملنی چاہیے، یعنی میرا بھی ان سے لینا دینا ہرگز نہیں، دکھے وقت میں یوں سایہ ساتھ چھوڑتا بتایا گیا ہے۔ اب اسمبلیوں اور اقتدار کے پی کے ایوانوں میں پہنچنے والے 9 مئی کے ذمے داران کو عدالتوں سے سزا ہونے کی صورت میں جہاں یہ سیٹوں سے محروم قرار ہوں گے وہاں سرحد کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی محروم اقتدار کے سزاوار بن جائیں گے۔

مولانا فضل الرحمن جو اقتدار کے خواں سے محروم انتخابات نے کردیے وہ ماہ رمضان کے بعد سندھ سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ انہوں نے تحریک کے لیے سندھ کا انتخاب اس کی حساسیت کی وجہ سے کیا ہے، وہی آصف زرداری کا نعرہ ’’پاکستان کھپے‘‘ تو ہمیں بھی اقتدار میں کھپائو۔ کا یہ انداز ہے کہ دیکھو ہم بھی سندھ کی حساسیت کو گہرا کرسکتے ہیں۔ سندھ کی سرزمین کے فرزند بلاول کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑنا اور کمانڈ اسٹک کا پیغام بالواسطہ مولانا فضل الرحمن کو بھی ہے کہ سندھ کو آسان کھیر مت سمجھنا کہ پیر صاحب پگاڑو اور جے ڈی اے کی ناراضی کا وہ فائدہ اٹھالیں گے اور حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھ لیں گے۔ عیدالفطر کے بعد سیاسی ہانڈی اُبلے گی، 6 مئی بروز منگل کے انتخابات اس دن کے حوالے سے اہل علم میں منحوس اور اہل نجوم کے حوالے سے مریخ زدہ سمجھے جاتے ہیں اور یک طبقہ اس رائے کا حامل ہے کہ دنیا میں جتنے بھی عذاب آئے ہیں منگل کو آئے ہیں اور سندھ میں تو اس کو ’’انگارو‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی دھکتا ہوا کوئلہ۔ ایک دانا نے یہ بھی بتایا کہ متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات ہی انتخابی صراط مستقیم ہے اور دوسرا اہل فوجی مداخلت روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ آرمی چیف جب 3 سال کی معیاد پوری کرلے تو آئینی ہر اس کو صدر پاکستان بنادیا جائے اور یہ سیاسی اور فوجی کش مکش کا خاتمہ کردے گی۔ یوں ہوسکتا ہے باہمی اقتداری بٹوارہ سے ملکی بٹوارہ کا خطرہ۔ کمانڈ اسٹک اور سیاسی ہاتھ کا ملاپ اچھے نتائج دے سکے جس کو دیکھنے کی آس قوم کو ہے یہ مل کر لٹیروں کی جڑیں اکھاڑ دیں، یوں خوش رہے گا صیاد بھی اور جاری رہے گی جمہوری روایت بھی۔ نہ اس کو خدشہ نہ ان کو خطرہ سب خوش کچھ ہو یا تھا جو ہوتا تھا۔