’’سابقہ حکومت سابقہ عدلیہ‘‘

557

خبر یہ ہے کہ ’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے45برس بعد عدالت عظمیٰ نے یہ اعتراف کیا ہے کہ نواب محمد احمد خان قتل کیس کی سماعت شفاف نہیں تھی۔ بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا محض اعتراف مداوا نہیں ہوتا۔ مگر جب غلطیاں تسلیم کی جاتی ہیں تو اسی نوعیت کی دوسری غلطیوں سے اجتناب کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی‘‘۔

پرانی خبر یہ ہے کہ: ’’جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 6 اکتوبر 2016 کو رحیم یار خان کے رہائشی دو بھائیوں غلام قادر اور غلام سرور کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سزائے موت سے بری کردیا۔ مگر بدقسمتی سے انہیں گزشتہ سال اکتوبر ہی میں بہاولپور جیل میں پھانسی دے دی گئی‘‘۔

ایک بہت پرانی خبر یہ ہے کہ: ’’بطور چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس منیر کا وہ فیصلہ آج بھی متنازع سمجھا جاتا ہے جس میں انہوں نے 1954ء میں غلام محمد کے دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کو نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے جائز قرار دیا تھا۔ اس فیصلے کو متنازع سمجھے جانے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ خود جسٹس منیر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اعتراف کیا تھا کہ ان کا یہ فیصلہ حالات کے دبائو کا نتیجہ تھا‘‘۔ سابقہ عدالت عظمیٰ کے بھٹو کی سزائِ موت کے فیصلے کے بارے میں موجودہ عدالت عظمیٰ کی رائے عدلیہ کی ستر پچھتر سالہ تاریخ میں لاتعداد فیصلوں میں سے نمونے کے صرف ایک فیصلے کے ادھورے جائزے کے بعد سامنے آنے والی رائے ہے۔ میرے وطن کی سابقہ (اور موجودہ) عدالتوں کے نہ جانے مزید کتنے چھوٹے بڑے فیصلے عدلیہ کی ’’جبین نیاز‘‘ میں ’’رائے‘‘ کے لیے تڑپ رہے ہوں گے۔

اس ادھورے تجزیے سے بننے والی رائے سے یہ تو ثابت ہوا کہ جو سلوک ’’سابقہ حکومتیں ہماری معیشت کے ساتھ کرتی رہی ہیں تقریباً وہی سلوک سابقہ عدالتوں نے عدل وانصاف کا نظام کے ساتھ بھی کیا۔ ’’پچھلی حکومتوں‘‘ کے بعد اب ’’پچھلی عدالتوں‘‘ کا رونا بھی شروع ہوگیا ہے۔ اتنے بڑے کیس میں انصاف نہیں ہوا تو عام لوگوں کے کیسز میں کیا ہوتا رہا یا کیا ہو رہا ہے، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دو بے گناہ بھائیوں کی پھانسی کا مذکورہ بالا کیس تو فقط ایک مثال ہے‘‘۔

اوپر مذکور سابقہ فیصلوں کی یہ تو چند ایک مثالیں ہیں۔ نہ جانے کتنے ایسے فیصلے ہیں کہ جن پر فیصلہ دینے والے جج تنہائی میں شرمندہ ہوتے ہوں گے اور ان فیصلوں سے عدلیہ کا دامن بھی داغ دار نظر آ رہا ہوگا۔ عدل وانصاف کے معاملے میں دنیا میں ہماری عدلیہ کی جو درجہ بندی ہے اس کے پیچھے غلط اور داغدار فیصلوں کی طویل تاریخ ہے۔ ابھی تو ہمارے ججوں کے جبر کے تحت دیے گئے فیصلوں کی تاریخ کا جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت والا سیاہ ترین فیصلہ بھی جائزے اور رائے کا منتظر ہے۔ مرحوم جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت والے فیصلے کے سائے ابھی تک ہمارے نظام عدل کو دھوپ نہیں لگنے دے رہے۔ جبر کے تحت دیے گئے اس فیصلے کی فائل بھی کھلنی چاہیے۔ اگلے دور میں آنے والی ’’موجودہ‘‘ عدلیہ آج کی ’’سابقہ‘‘ عدلیہ کے فیصلوں پر کیا رائے دے گی یہ تو پتا نہیں لیکن یہ تو ہر ذی شعور جانتا ہے کہ عدل کے ذبیحوں پر کل کی پشیمانی عبث ہوگی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ آج کی عدلیہ سابق ہونے سے پہلے اپنے فیصلوں پر احتیاطاً نظرثانی کرلے۔ سابقہ عدلیہ کے غلط فیصلوں پر موجودہ عدلیہ کی بہترین سے بہترین رائے سے بھی مظلوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بس ذرا مظلوم کے وارث دل خوش کر لیں گے یا مظلوم کے کچھ عزیز خوش ہوجائیں گے۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ آخری عدالت لگے اور دنیا کی ساری عدالتیں سابق ہوجائیں، آج کے جج اپنے فیصلوں پر نظرثانی کر کے ’’رائے‘‘ درست اور تبدیل کرلیں۔ اُخروی عدالت میں ہر دنیوی جج کی نجات اسی میں ہے۔

ماضی کی عدالتیں اور ان کے جج تو اب سابق ہوگئے اور بے بس بھی اور ان کے تو قلم بھی ٹوٹ گئے۔ وہ تو اب اپنے ماتحت الجبر یا ماتحت المفاد فیصلوں پر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ آج کے ججوں کے پاس تو سنہری موقع ہے کہ آگے جانے یا ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک نظر اپنے فیصلوں پر ڈال لیں تاکہ سائلین کو ان کی زندگی میں ہی انصاف مل سکے۔ اگر یہ جبر اور مفاد سے خالی اور آزاد فیصلے ہیں تو ان کے ضمیر مطمئن اور آخرت کی عدالت میں ان کے لیے سرخروئی کا باعث بنیں گے۔ جسٹس قاضی فائز نے بالکل درست کہا کہ غلطیاں تسلیم کرنے سے دوسری غلطیوں سے بچنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور عدلیہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ چیف جسٹس صاحب ہماری عدلیہ کے وقار میں اضافے کا یہ شاندار فیصلہ یقینا آپ کے اور آپ کے ساتھی ججوں کے ذاتی وقار میں بھی اضافہ کرے گا۔ اسلامی جمہوریہ کی پون صدی کی عدالتی تاریخ میں مورخ جسٹس کارنیلس کے بعد کسی جرأت مند منصف کا ذکر کرنے کے لیے قلم سنبھالے منتظر بیٹھا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جبر و مفاد سے پاک فیصلوں کے ذریعے آج کی عدلیہ کے وقار میں مزید اضافے کی توفیق دے۔ آمین