صدر مملکت کا انتخاب: قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ ختم، ووٹوں کی گنتی جاری

446

اسلام آباد: صدارتی انتخاب کے لیے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

ملک کے 14 ویں صدر کے انتخاب کے لیے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی پولنگ کا وقت 4 بجے ختم ہونے کے بعد دونوں صدارتی امیدواروں کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔

قبل ازیں آج صبح قومی اسمبلی ہال کا انتظام الیکشن کمیشن کے حوالے کردیا گیا تھا اور اسمبلی ہال کے دروازے الیکشن کمیشن کی جانب سے بند کردیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ صدارتی انتخاب سے متعلق طریقہ کار اور ارکان کی رہنمائی کی ہدایات آویزاں کردی گئی تھیں جب کہ قومی اسمبلی ہال کے اطراف پارلیمنٹ کی سکیورٹی کے بھی خاطر خواہ انتظامات مکمل ہو چکے تھے۔ صدارتی انتخاب کے لئے قومی اسمبلی ہال کو پولنگ کے عمل کے لیے مختص کیے جانے کے بعد 2 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے۔

صدارتی الیکشن کے قومی اسمبلی میں پریزائیڈنگ افسر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق تھے جنہوں نے صبح 10 بجے انتخابی عمل کا آغاز کردیا۔ انہوں نے کہا کہ موبائل کے استعمال پر پابندی ہے، کوئی رکن موبائل فون استعمال نہیں کرے گا۔صدارتی الیکشن میں سینیٹر شیری رحمان آصف علی زرداری کی پولنگ ایجنٹ جکب کہ سینیٹر شفیق ترین ، محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ مقرر کیے گئے تھے، جس کے بعد پولنگ ایجنٹس کو خالی بیلٹ باکس دکھا کر سیل کردیا گیا ہے۔

پولنگ سے قبل صدارتی امیدوار آصف زرداری اور محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ چکے تھے جب کہ دیگر ارکان کی آمد کا سلسلہ بھی بعد میں جاری رہا۔

صدارتی الیکشن میں 1102اراکین قومی وصوبائی اسمبلی حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے۔ ووٹنگ کے عمل میں سینیٹ سے 83 اراکین جب کہ قومی اسمبلی سے 296 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا۔

سینیٹ سے جے یو آئی ف کے 4 اراکین،جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا ۔ اسی طرح جی ڈی اے کے سینیٹر مظفر حسین شاہ اور پی ٹی آئی کے شبلی فراز بھی ووٹ نہ ڈالنے والوں میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری اور اعظم سواتی نے بھی ووٹ حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔

قومی اسمبلی سے جے یو آئی کے 8اراکین نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا ۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل 4 بجے مکمل ہوگیا۔ جس کے بعد پانچوں پریزائیڈنگ افسران ووٹوں کی گنتی کے بعد فارم 5 جاری کریں گے۔ فارم 5 اور ووٹ سر بمہر کرکے چیف الیکشن کمشنر کو بھجوائے جائیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر صدارتی الیکشن کے ریٹرننگ آفیسر ہیں۔ صدارتی امیدواروں کےساتھ کنسولیڈیشن کے بعد فارم 7 جاری کیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے جاری کردہ فارم 7حتمی اور سرکاری نتیجہ ہوگا۔

پختونخوا اسمبلی: خیبر پختونخوا اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل صبح 10 بجے شروع ہوا جو شام 4 بجے تک جاری رہا۔ صوبائی اسمبلی کا ایوان 145 نشستوں پر مشتمل ہے جب کہ انتخابات ملتوی ہونے کی وجہ سے 2 نشستیں خالی ہیں ۔ 21 خواتین اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین تاحال حلف نہیں لے سکے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے 118 اراکین ووٹ کا استعمال کرنے کے اہل تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ اراکین کی تعداد 91، جے یو آئی ف 9 ،مسلم لیگ ن 9، پیپلز پارٹی کی 5 ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹرین 2 اور اے این پی کا ایک رکن ہے ۔ 4 آزاد اراکین بھی اسمبلی کا حصہ ہیں۔

خیبرپختونخوا میں ایک صدارتی ووٹ کی شرح 2.24 ہے۔ خیبر پختونخوا سے محمود خان اچکزئی کو 41 الیکٹورل ووٹ جب کہ آ صف علی زرداری کو 8 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ جے یوآئی نے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ فخر جہان جب کہ آصف علی زرداری کے پولنگ ایجنٹ احمد کریم کنڈی مقرر کیے گئے ہیں۔

صوبائی اسمبلی میں پولنگ کا وقت مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کی گئی، جس کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے منتخب امیدوار محمود خان اچکزئی نے 91 ووٹ حاصل کیے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے امیدوار آصف علی زرداری نے 17 ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔

پختونخوا اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے مجموعی طور پر 109 ووٹ پول کیے گئے ہیں۔ 36 ووٹ کاسٹ نہیں کیے گئے ۔ ان میں 21 خواتین اراکین اسمبلی، 4 اقلیتی اراکین شامل ہیں جب کہ 2 حلقوں پر خیبرپختونخوا میں انتخابات نہیں ہوسکے تھے۔

سندھ اسمبلی: سندھ اسمبلی میں بھی صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک جاری رہا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ عقیل احمد عباسی نے سندھ اسمبلی میں پریزائیڈنگ افسر کے فرائض انجام دیے۔ 162 ارکان میں پیپلز پارٹی کے 116، ایم کیو ایم کے 36، پی ٹی آئی کے 9 ، جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے ۔ سندھ اسمبلی میں 2 اعشاریہ 5 نشستوں پر ایک ووٹ گنا جائے گا۔

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان کی مجموعی تعداد 150 ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف علی زرداری کو سندھ سے 58 اور محمود خان اچکزئی کو 3 اعشاریہ 4 ووٹ مل سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 2 ارکان کا ووٹ گنا نہیں جائے گا۔

سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق صدارتی انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس صدارتی انتخاب کا حصہ نہیں ہیں۔ اپنی پارٹی قیادت کی ہدایت کے مطابق ووٹ نہیں ڈال رہا۔ میں الیکشن کے لیے نہیں بلکہ اپنے کام کے لیے سندھ اسمبلی آیا تھا۔

پولنگ کا وقت مکمل ہونے کے بعد سندھ اسمبلی سے صدارتی انتخاب کے لیے مجموعی طور پر 161 ووٹ کاسٹ ہوئے ۔ جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ ایم کیو ایم کے 36ارکان اسمبلی نے حق رائے دہی استعمال کیا ۔ پیپلزپارٹی کے 116 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا ، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 9آزاد ارکان اسمبلی نے ووٹ کاسٹ کیا جب کہ ایک ووٹ مسترد ہوا، جسے علیحدہ رکھ دیا گیا۔

بلوچستان اسمبلی: بلوچستان اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل 10 تا 4 بجے تک جاری رہا۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان کو پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ظہور بلیدی اور علی مدد جتک کو آصف زرداری کا پولنگ ایجنٹ مقرر کیے گئے تھے۔

بلوچستان اسمبلی کے 64 اراکین ووٹ ڈالنے کے لیے اہل ہیں جب کہ بلوچستان اسمبلی ارکان کا ایک ووٹ ایک ہی شمار ہوگا۔دیگر اسمبلیوں کے ووٹوں کی تعداد بلوچستان اسمبلی کے ووٹوں کے برابر ہوگا۔

پنجاب اسمبلی: پنجاب اسمبلی میں بھی صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ صبح 10 سے شام 4 بجے تک جاری رہی، جہاں 357اراکین حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے۔ پنجاب اسمبلی کے 5.49 ارکان مل کر ایک ووٹ بناتے ہیں۔