چھے مارچ 2024 کے فیصلے نے چار اپریل 1979 کی یاد دلادی جب ایک عدالتی فیصلے کے تحت سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دی گئی 1979 میں دی گئی سزائے موت کی بنیاد 11 اور 12 نومبر کے درمیان 1974 کی درمیانی شب لاہور کے اچھرہ تھانے میں درج ایک مقدمہ ٔ قتل کے مدعی اس وقت کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری تھے جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے والد نواب محمد احمد خان کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قتل کروایا ہے وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے سرگرم رکن ہیں اور حکومت اور بھٹو کے سب بڑے ناقد ہیں احمد رضا قصوری پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 70 19 میں قصور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے وہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر تحریک استقلال میں شامل ہوئے اور بھٹو کی شدید مخالفت شروع کر دی یہاں تک کہ جب بھٹو نے اس اسمبلی میں آئین کو ایوان کی جانب سے متفقہ طور پر منظور شدہ آئین قرار دیا تو احمد قصوری نے کہا کہ آئین پر مجھ سمیت چار دیگر اراکین قومی اسمبلی نے دستخط نہیں کیے ہیں اس بنا پر یہ ایوان سے متفقہ طور پر منظور شدہ نہیں ہے اس پر شدید اشتعال میںآجانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ یہ شخص مجسم زہر ہے بہت برداشت کر لیا اب میں اس کو برداشت نہیں کروں گا اس واقعے کے پانچ ماہ بعد 4نومبر 1974 کو احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا واقعہ پیش آگیا جس کا مقدمہ احمد رضا قصوری نے بھٹو کے خلاف درج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ان کے والد کے علاوہ نذیر احمد شہید سمیت اختلاف کے دیگر 4 ارکان کو قتل کروایا ہے۔
مقدمے کے اندراج کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شفیق الرحمان پر مشتمل ایک ٹربیونل کو واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی، ٹربیونل نے 26 فرو ری 1975کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی جو منظر عام پر نہ آ سکی، 20 اکتوبر 1975 کو قتل کا یہ مقدمہ داخلے دفتر کر دیا گیا پھر5 جولائی 1977 آگئی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک بھر میں مارشل لگا دیا اور اقتدار پر قابض ہو گئے جنرل ضیا کے اقتدار میں آنے کے بعد تین ستمبر 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو پہلی مرتبہ تعزیرات پاکستان کے تحت قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار ہوئے دس دن بعد لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم سمدانی نے 13 ستمبر 1977 کو ثبوتوں کو متضاد اور نامکمل قرار دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کی اور ان کو رہا کر دیا۔ 17 ستمبر 1977 کو پھر گرفتار ہوئے اس دفعہ فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ ان کو مارشل لا قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا پھر ایک ماہ بعد ٹرائل شروع ہوا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایس ایم قریشی، جسٹس گلباز خان اور جسٹس آفتاب حسین پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی اور مارچ 1978 کو بھٹو سمیت تمام ملزمان کو سزائے موت سنا دی۔
عدالت عظمیٰ نے چھے فروری 1979 میں کو چار تین فیصلے کو برقرار رکھا اور اس طرح چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ مگر چھے مارچ کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے یہ ثابت کیا کہ جن کے وارث زندہ ہوں جن کے ہوتے سوتے جاگ رہے ہوں اور انہی کے لیے جاگ رہے ہوں ان کے لیے لڑتے ہوں عدالتوں کی چوکھٹوں پر انصاف مانگتے ہوں تو وہ زندگی میں نہ سہی مگر بعد ازمرگ اپنا حق حاصل کر ہی لیتے ہیں مگر جو لاوارث ہوں، کوئی نام لیوا نہ ہو، جن کی برسیوں پر کوئی ماتم کناں نہ ہو، جن کے لاشوں پر کوئی پرسہ دینے والا نہ ہو، جن کے حق کے لیے کوئی لڑنے والا نہ ہو تو وہ زندگی تو کیا بعد از مرگ بھی انصاف نہیں حاصل کر سکتا۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ، سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو لگ بھگ 46 سال بعد قتل کے مقدمے میں ایک لحاظ سے باعزت بری کر دیا گیا پاکستان کے قاضی القضاہ اور ان کے دیگر سات قاضیوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت میں فیئر ٹرائل کا موقع نہیں مل سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وارثوں کو یہ فیصلہ مبارک ہو، ڈھیروں خوشیاں نصیب ہوں دو دھوں دو نہائیں پوتوں پھلیں۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں بعد میں شہید قرار پانے والے بھٹو کے عدالتی قتل پر ملنے والے انصاف پر بے اختیار ایک لاوارث لاشہ یاد آگیا کہ جس لاشے پر کوئی پرسہ دینے والا نہیں تھا نہ ہے نہ کوئی ماتم کناں ہے نہ تھا نہ ہوگا، اس لاشہ پر کوئی دُہائیاں دینے والاہے نہ کوئی صدائے سوگ بلند کرنے والا ہے یہ لاشہ کسی اور کا لاشہ نہیں یہ لاشہ ہم سب کا لاشہ ہے۔ یہ ہمارے مشرقی پاکستان کا لاشہ ہے کہ جس کے لیے کوئی صدائے سوگ، صدائے احتجاج، صدائے غم بلند کرنے والا نہیں ہے، نہ جانے کیوں مجھے ایک پرانا نعرہ یاد آرہا ہے جس کی ادھر ہم ادھر تم کی ہولناک دھمک آج بھی مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش کے مقتل میں سنائی دے رہی ہے۔ آج پاکستان کے قاضیوں کی جانب سے اپنے فیصلے سے پرانے قاضیوں کو یہ بتایا جارہا ہے تم اُدھر ہم اِدھر، کیوں لگتا ایساہے عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ یاد دلا رہا ہے کہ کچھ فیصلے قدرت کیا کرتی ہے مشرقی پاکستان میں ہزاروں بہاریوں اور بنگالیوں کے خون سے جانے انجانے ہاتھوں مہرہ بننے والے شطرنج کے کچھ پیادوں نے ہولی کھیلی ان کے خون کو پانی سے بھی سستا کردیا گیا اور مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش میں تبدیل کیا گیا اور پھر قدرت کا فیصلہ آیا پرانی بات ہے بار بار دہرائی جارہی ہے کہ اگر بات سچی ہو دماغ کو لگتی ہو دل میں اترتی ہو تو اس کو دوہرانے میں کچھ ہرج نہیں کہ سقوط ڈھاکا کے تمام مرکزی کردار اور ان کے بیش تر اہل خانہ میں سے بیش تر لوگ حادثاتی اموات کا شکار ہوئے اور ایک بے نامی اور گمنامی کے پاتال میں چلا گیا مگر مبارک ہو مبارک ہو بلاول زرداری کو زرداری کو اور بختاور کو بھٹو کے واراثوں کو انہوں نے اپنا مقدمہ جیت لیا رہ گیا مشرقی پاکستان کا لاشہ تو اس کا اگرکوئی واراث تو اس نے اس لاشہ کو چند کتابوں کا کفن پہنا کر حمود الرحمن کمیشن کی قبر میں دفن کردیا، اب اس کی برسی پر کوئی نہیں روتا ہے رونے کے لیے ایک دوسرا 16دسمبر تیار کرلیا گیا تھا۔