ہر سال یوم خواتین حقوق نسواں کے نئے سنگ میل طے کرنے کے لیے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ کنونشن، سیمینار اور مذاکرات، بحث و مباحثے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کامیاب کوشش نظر آتی ہے۔ لیکن کیا واقعی خواتین کے استحصال میں کمی آتی ہے یا خواتین پر تشدد میں اضافہ ہی ہورہا ہے اور اگر ایسا ہے تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
آج اگر خواتین پر تشدد کی بات کی جائے تو یہ مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ڈاکٹر عافیہ کی ناحق قید کا ذکر نہ کیا جائے اور غزہ میں خواتین کے اسرائیلی نازی فوج کے ہاتھوں سب سے بڑے قتل عام کا ذکر نہ کیا جائے اور اسیر فلسطینی خواتین جو اسرائیلی جیلوں میں غیر انسانی سلوک کا سامنا کررہی ہیں۔ بھلا یوم خواتین پر ان کے لیے حقوق کی بات کیوں نہ کی جائے۔ ان مظالم پر انسانیت اور انسانی حقوق کے ہر علمبردار کو بھرپور آواز اٹھانا چاہیے۔ طاقتور ممالک اور ان کے حکمران جو خواتین کے حقوق کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ آخر کیوں اس معاملے میں اندھے بہرے اور گونگے بنے ہیں؟ بہرحال معاملہ یہ ہے کہ نصف انسانیت کی ترجمانی اگر مرد کرتا ہے تو نصف انسانیت کی ترجمان عورت ہے، عورت اور مرد کبھی ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، کوئی سوسائٹی تنہا کسی ایک جنس سے وجود میں نہیں آسکتی۔ معاشرہ ترقی ہی اس وقت کرتا ہے جب دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال سے معاشرتی رشتے قائم ہوں، میاں اور بیوی کوئی دو مختلف پارٹیاں نہیں جو اپنے اپنے حقوق کے لیے ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہیں۔ یہ ایک ہی پارٹی کے دو رکن ہیں۔ ایک پارٹی کے دو ارکان کے درمیان اختلافات تو ہوسکتے ہیں لیکن جب پارٹی کے مفاد کی بات آئے گی تو رائے بھی ایک ہوجائے گی اور سوچ بھی ایک… میاں بیوی کو جب ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے تو یہ اُسی قربت، محبت، ایثار اور اخلاص کا استعارا ہے جو میاں اور بیوی میں ہونا چاہیے۔ پچھلے سال عورت مارچ میں خواتین جو پلے کارڈ اٹھائے تھیں اُن پر تحریر تھا ’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزا کہاں ہے؟ یہی خاتون اس پلے کارڈ کو تھامنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتی تھیں کہ ’’گھر کے مردوں کی غلامی اور خدمت سے آزادی ایک اہم مطالبہ ہے جس کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے‘‘۔
گھر میں یہ خواتین گھر کے مردوں کی کیا خدمت کرتی ہوں گی؟ یہ بحث ہرگز اہم نہیں ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ رات کو گھر آنے والے شوہر کے لیے بھائی اور باپ کے لیے ہر ماں بہن بیوی اور بیٹی دیر تک جاگتی ہے اور اس کو کھانا گرم کرکے دے کر اُسے خوشی بھی ملتی ہے اور سکون بھی۔ دن بھر گھر کے پرسکون اور آرام دہ ماحول میں گزارنے والی خواتین شاید اس قدر اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتیں جتنی کہ ملازمت کرنے والی خواتین۔ لہٰذا گھر واپسی پر گرم کھانا کبھی شوہر بیوی کے لیے بھی نکال کردے سکتا ہے۔ یہ کام ہرگز اس بات سے بڑا کام نہیں کہ وہ اپنی تنخواہ گھر کے اخراجات پر خرچ کرے اور اسٹور سے گھر کا سودا سلف لے کر آئے۔ جو کہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کا کام ہی سمجھا جاتا ہے۔ عورت مارچ میں کچھ وہ خواتین بھی تھیں جو اس ہنگامے اور شور شرابے سے بیزار تھیں، انہیں نہ اس دن کی اہمیت پتا تھی نہ وہ اُس مقصد سے واقف تھیں جس کے لیے انہیں یہاں لایا گیا تھا۔ کیونکہ انہیں تو اس وعدے پر لایا گیا تھا کہ مہینے بھر کا راشن ان کو دیا جائے گا تو بس انہیں اس وعدے کے وفا ہونے کا انتظار تھا۔ مارچ میں شامل ایک بزرگ خاتون کہتی ہیں کہ میں تو جب سے آئی ہوں بس یہ دیکھے جارہی ہوں کہ کیا یہاں آنے والی خواتین ساری مظلوم ہیں؟ کیا انہیں قید میں رکھا گیا ہے جو آزادی مانگ رہی ہیں؟ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا مطالبہ آزادی کی کون سی قسم متعارف کروا رہا ہے؟ اس سوال پر عورتوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ یہ آزادی بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنی روایاتی خاندان رسم و رواج بلکہ اس سے بھی زیادہ عورت کوئی کھلونا نہیں۔ اور میرا جسم میری مرضی کا جواب جس کی رقم اس کی مرضی بھی ہوسکتا ہے۔ آج کاروکاری کے نام پر عورتوں کو قتل کرنا اپنی دشمنیاں نمٹانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، قرآن سے شادی اور ونی کے ذریعے عورت کو اُس کے جائز حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ ان رسومات کا خاتمہ کوئی سیکولر نظام نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ پیداوار ہی لبرل اور غیر اسلامی نظام کی ہیں۔ ان کا خاتمہ اسلامی احکامات کی آگاہی اور اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ مغرب دنیا کے نظام میں تبدیلی چاہتا ہے۔ اس کے لیے خاندان کا انہدام اولین مقصد ہے۔ اس تبدیلی کے لیے اس نے تہذیبی جنگ کا اصطلاح ایجاد کی مساوات کا دلفریب نعرہ لگایا۔ کمزور کو طاقت دینے کا جھانسا دے کر معاشی دوڑ میں جوتا اور خوب دوڑایا۔ مساوات کے بوسیدہ نعرے کو ’’معاشی مساوات‘‘ اور ’’صنعتی مساوات‘‘ کا نیا روغن لگا کر تروتازہ کرنے کی کوشش کی۔ مغرب نے جب بھی عورت کے حقوق کی درجہ بندی کی تو اس کی تہہ میں مذہب سے نفرت اور صنعتی انقلاب کی نئی بلندیوں کو چھونا تھا۔
یورپ میں آباد 2 یا 3 فی صد خواتین جو شاید 2 کروڑ سے کچھ ہی زیادہ ہوں گی ان کے گھروں سے نکل کر روزگار کے میدان کا رُخ کرنے کی بنا پر پوری دنیا میں ساڑھے تین ارب خواتین کے کردار کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ اور امریکا میں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کی صورت حال یہ ہے کہ امریکا میں اسمبلیوں میں نمائندگی کا تناسب صرف 11 فی صد، فرانس اور برطانیہ میں 10 فی صد سے کم ہے۔ امریکا کی صدر آج تک کوئی عورت نہ بن سکی، ہمارے ہاں مغرب کا غلامانہ ذہن تہذیب کی اس جنگ میں جنسی دوڑ Gendr Race کو بنیاد بناتا ہے، اسلامی تعلیمات میں کسی نہ کسی نکتہ کو بنیاد بنا کر مرد اور عورت کے درمیان ایک مسابقانہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیکولر حلقوں میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ خدا کے نزدیک کون بہتر ہے، کون بدتر؟ مرد یا خواتین؟ اس سوال کا صاف جواب اسلام نے دیا ہے کہ سربلندی کا معیار تقویٰ، سیرت اور اخلاق ہے۔ اس کسوٹی پر جو جتنا کھرا ثابت ہوگا خدا کی نظر میں اتنا ہی قابل قدر اور صاحب اکرام ہوگا۔ اس میں مرد اور عورت کی کوئی تحصیص نہیں ہے۔ اسی طرح صاف اور سادہ بات ہے کہ مرد وہ کرے جو اللہ نے اس کو عورت کے بارے میں حکم دیا ہے اور عورت وہ کرے جو مرد کے بارے میں اس کو حکم دیا ہے تو کسی گھر میں کوئی فساد نہ ہو اور معاشرہ مکمل طور پر پُرسکون اور پرامن ہو۔ کسی معاشرے میں کامیاب فرد کے لیے تین شرائط لازمی ہیں۔ پہلی صحیح فکر رکھتا ہو کہ اچھے اور برے کی تمیز کرسکے کہ نفع و نقصان کے بارے میں سوچ کر فیصلہ کرسکے۔ دوسری یہ کہ اپنے فیصلے کے مطابق عمل کرسکے۔ تیسرے یہ کہ اس کو معاشرے کی خیر خواہی کے طریقوں پر عمل کی آزادی ہو اور دوسری طرف معاشرہ اس سے وفادار ہو۔ یعنی اگر اس کو معاشرے کے مفاد کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہ ہو تو دوسری طرف اسے اس کے اپنے مفاد کے لیے کام کی اجازت اور آزادی ہو۔ اسلام نے عورت کو خاندان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے فکر و عمل کی راہ بند نہیں کی۔ اس کو وہ تمام حقوق پہلے دن سے فراہم کیے ہیں جو معاشرے کا ایک کامیاب فرد بننے کے لیے ضروری ہیں۔ یہی وہ معاشرے کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ عورت کے کامیاب فرد بننے میں اس کی مدد کرے اور ہر طرح کی رکاوٹ دور کرے۔ اسلام کے دیے ہوئے یہ حقوق عورت کے لیے مکمل ہیں اور انہی کا ہم مطالبہ کرتے ہیں۔