’’ملک شریف‘‘

641

خبر یہ ہے کہ 263 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج کو بدنام کرنے کی سازشوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عوام کو سیکورٹی دینے کے سوا فوج کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں شرکاء نے الزام تراشی کو مستر د کرتے ہوئے واضح کیا کہ عوام کو سیکورٹی دینے کے سوا مسلح افواج کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا، مشکلات کے باجود مسلح افواج نے الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کی ہدایت کی روشنی میں محفوظ ماحول فراہم کیا۔ مخصوص سیاسی عناصر کا سوشل میڈیا اور کچھ ٹاک شوز میں مداخلت کے غیر مصدقہ الزامات میں افواج کو بدنام کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ (اخبارات 6 مارچ 2024)
علامتی طور پر 6 اور عملاً 7 فروری 2024 کا دن ہماری انتخابی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔ فوج نے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ انتخابات میں اس کا کردار سیکورٹی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ قوم کو اپنی فوج کی اس وضاحت پر بحث نہیں کرنی چاہیے۔ الزامات اس وضاحت کے بعد بھی لگتے رہیں گے۔ ان کی تحقیق سے ہمیں سروکار نہیں! متعلقہ فریق نے تردید کردی اور عوام تک یہ تردید پہنچ گئی۔ ہمیں اپنا ملک اور اپنے ادارے بہت عزیز ہیں۔ وضاحت آگئی، تردید بھی آگئی، سازشی ذہنوں کی مذمت بھی ہوگئی مگر سچی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے کردار پر نہ دل مطمئن ہیں، نہ دماغ، نہ ضمیر، نہ فارم 45 اور نہ ہی لوگ!
6 فروری کے ڈرامے کے کرداروں پر سے پردے اٹھتے بھی رہیں گے اور پردے ڈالنے کی سعی بھی جاری رہے گی۔ سوئے ہوئے ضمیروں کو سلائے رکھنے اور جاگنے والے ضمیروں کو سلانے کا انتظام بھی ہوتا رہے گا۔ وضاحتوں کے باوجود الزام تراشیوں کا یہ کھیل جاری رہے گا۔ فوج کی وضاحت قبول مگر یہ تو طے ہے کہ وطن عزیز کی دھاندلی زدہ انتخابی تاریخ کا یہ بھونڈا ترین ڈراما تھا۔ ان انتخابات میں ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں۔
اس انتخابی ڈرامے کا بدصورت ترین حتمی نتیجہ یہ ہے کہ سات فروری کو ملک ان لوگوں کے حوالے کردیا گیا جن کو عوام نے مسترد کردیا تھا۔ اس الیکشن کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ ایوان میں جرأت و بہادری اور دلیل سے غیر اسلامی قوانین کی مخالفت کرنے والی اکا دکا آوازوں کا راستہ مکمل بند کردیا گیا۔ یہ یقینی بنایا گیا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نہ پہنچ پائیں۔ پی ٹی آئی کے بڑے مینڈیٹ پر جزوی ڈاکہ مارا گیا کہ ایک صوبہ تو کم از اسے عطا ہوگیا۔ مگر سب سے بڑا ڈاکہ تو سب سے چھوٹے مگر حق اور سچ کی جاندار ترین آواز کے مینڈیٹ پر ڈالا گیا کہ ڈاکو جھونپڑی کے بوریا بستر سمیت سب کچھ ہی لے گئے۔ محافظ دیکھتے رہ گئے۔ کسی حد تک یقین ہے کہ ایک ایک سیٹ پر گزارہ کرنے والے ان درویش ’’فقیروں‘‘ کی پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکے کی ایف آئی آر بھی نہیں درج ہوسکے گی۔ ڈاکٹر مشتاق اور عبدالاکبر چترالی کڑوی گولیاں دینے والے حکیم ہیں۔ ان کی گولیاں ملک کی نظریاتی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ ان درویش حکیموں کے مطب بند کرکے ملک کے نظریاتی تشخص کو ’’عطائی قصابوں‘‘ کے حوالے نہ کریں۔
نوازی ہوئی لیگ کے مستقبل میں انتخابی عزائم کو سمجھنے کے لیے ایک خبر بہت اہم ہے جس میں نگران حکومت کے تکلف سے بھی جان چھڑانے اور کھل کھیلنے کے منصوبے کا پتا چلتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ: ’’ایوان بالا میں حکومتی ارکان نے نگراں حکومت کی ناقص کارکردگی اور ملک کو بحرانوں کا شکار کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نگراں حکومتوں کا کردار ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔ بدھ کے روز سینیٹ اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ نگران سیٹ اپ کا تصور پارلیمانی نظام سے متصادم ہے، دنیا بھر میں نئے وزیراعظم آنے تک سابق وزیراعظم کام کرتا رہتا ہے، ہمیں آئین میں موجود خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سوال نگراں حکومت کی کارکردگی کا نہیں ہے‘ آئین میں نگرانوں کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے‘ اب وقت آگیا ہے کہ نگران سیٹ اپ کے نظام کو لپیٹ دینا چاہیے‘‘۔ یقین کرلیں کہ یہ اتنے ’’شریف‘‘ لوگ ہیں کہ طاقت ملنے پر یہ اپنے ’’محسنوں‘‘ کے ہاتھ پاؤں باندھنے اور ان کی آئینی ضرورت بھی ختم کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔ ان آئینی ’’رکاوٹی‘‘ ضرورتوں کے خاتمے کے بعد ملک مکمل طور پر ’’شریف‘‘ ہوجائے گا!