‘‘اگر میں ووٹ نہ دیتا’’

568

اگر میں 6 فروری کو ووٹ نہ دیتا تو کیا ہوتا۔ یقینا وہی ہوتا جو ہو رہا ہے۔ جو ہورہا ہے اس میں میرا نہ کوئی حصہ ہے نہ کوئی کردار! جو ہو رہا ہے یہ سب وہی ہے جس کی پیش گوئیاں ہمارے وطن کے ‘‘بابے وانگے’’ نجومیوں نے پہلے ہی کر دی تھیں۔ ان باخبر بابے وانگوں نے دبے نہیں کھلے لفظوں میں بتا دیا تھا کہ سورج چاند ستارے کیا ‘‘چال’’ چل رہے ہیں۔ مقامی بابے وانگے اتنے باخبر تھے کہ ہر چال کی باریکیاں تک بتادیں۔ آج آٹھ فروری کو گزرے ایک ماہ ہوگیا ہے۔ انتخابی نتائج اور حکومت سازی کے بارے تمام پیش گوئیاں صوبہ بصوبہ، شہر بشہر، حلقہ بحلقہ درست ثابت ہورہی ہیں۔ ووٹ دینے سے پہلے اور بیلیٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت بھی مجھے سو فی صد یقین تھا کہ میرا یہ منحنی سا ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا۔ لیکن پھر بھی میں ووٹ دینے بہت اہتمام سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پہنچا۔ پولنگ کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی پولنگ اسٹیشن کے باہر میرے جیسے سادہ لوح ووٹرز کی لمبی لائنیں لگ ہوئی تھیں۔ طویل انتظار کے بعد میرا نمبر آیا تو بیلیٹ پیپر پر میں نے بہت احتیاط سے ٹھپا لگایا اور کسی بھلے نتیجے سے مکمل ‘‘ناامیدی’’ کے ساتھ پیپر کو بے زبان ڈبے کے حوالے کردیا۔ آپ مجھے احمق سمجھ رہے ہوں گے کہ جب مجھے یقین تھا کہ یہ ساری مشق عبث ہے بے کار ہے اور ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا تو میں نے اتنی زحمت کیوں کی۔

سوال بجا ہے۔ دراصل میرا پولنگ اسٹیشن جانا اور ووٹنگ کے سارے عمل کاحصہ بننا اتمام حجت کے لیے تھا۔ الحمدللہ میں نے اور میرے اہل وعیال نے ووٹ کسی دنیا پرست شخص یا کسی ایسی پارٹی کو نہیں دیا جس کا منشور دنیوی کہانیوں اور جھوٹے وعدوں پر مشتمل ہو۔ میں نے ووٹ اس امیدوار کو دیا جس کی پارٹی نے مجھ سے شراب پر پابندی لگانے اور سود کے خاتمے اور اسلام کو نظام حکومت بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن مندرجہ بالا چند سطریں سوال کا اصل جواب نہیں۔ کیونکہ ووٹ جب گنا ہی نہیں جانا تو کسی دہریے کو دیں کسی حاجی کو دیں یا کسی حافظ کو سب کار عبث ہے۔ نہیں! میرا یہ عمل بے کار یا رائیگاں نہیں گیا۔ میں نے کسی عارضی دنیوی فائدے کے لیے ووٹ نہیں دیا۔ میرے ووٹ کا محور و مقصد ربّ کی رضا تھا۔ ربّ کی رضا ربّ کے حکم کی پیروی میں ہے۔ ربّ کے احکامات کی پیروی کا واحد طریقہ اس

کا وہ دین ہے جو قرآن و سنت میں بتا دیا گیا ہے۔ ووٹ دینے کی دوسری اہم وجہ میرا ‘‘لالچ’’ ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ چوری شدہ یا ڈاکے میں لوٹی ہوئی ہر چیز قیامت کے دن مالک کو واپس کرنی ہوگی۔ تکنیکی طور پر چوری کا مال تو چور قبر میں ساتھ لے کر جا نہیں سکتا تو آخرت میں وہ مال کہاں سے لائے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ چور کے اچھے اعمال مسروقہ مال کے مالک کو دیے جائیں گے۔ جس نے میرے ووٹ چوری کیے میرے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا وہ بھی روز قیامت اسی مرحلے سے گزرے گا۔ مجھے دنیا میں میرے ووٹ کا مثبت نتیجہ نہیں ملا تو کیا ہوا آخرت میں تو ملے گا ہی۔

اب ذرا سوچیے کہ اگر میں یہ سوچ کر گھر بیٹھا رہتا کہ رجعت پسند دینی سوچ رکھنے والا امیدوار یا اس کی آؤٹ آف ڈیٹ پارٹی کے جیتنے کی امید ایک فی صد سے بھی کم ہے تو میری باز پرس ہونی تھی کہ کچھ لوگ تم سے میرے دین کے لیے ووٹ مانگنے آئے اور تم نے ان کو ووٹ نہیں دیا۔ اگر میں ووٹ دینے نہ جاتا تو میرے پاس اس باز پرس کا کوئی جواب نہ ہوتا۔ میرے پاس ایک ووٹ سے زیادہ کی طاقت نہیں تھی۔ میں نے جو میری استطاعت تھی اس کے مطابق کوشش کی۔ نتیجہ تو میرے ہاتھ میں تھا نہیں۔ امید رکھتا ہوں کہ ربّ قبول فرمائے گا۔

‘‘سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں، اور مال واسبا ب نہ ہوں، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اور اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں، اور زکواۃ بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس’’۔ (صحیح مسلم)

قیامت کے دن کوئی چوری شدہ سونے، چاندی، مال و متاع اور مویشیوں کا حساب دے رہا ہوگا تو کوئی مینڈیٹ پر ڈاکے اور چوری کردہ کروڑوں ووٹوں کا!

‘‘اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل یعنی آخرت کے لیے کیا سامان بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے’’۔ (الحشر 18)