ایم کیو ایم (پاکستان ) حیران و پریشان

591

8 فروری 2024 کے الیکشن نے جہاں پورے پاکستان کے عوام کو حیران و پریشان کیا وہاں ایم کیو ایم (پاکستان) بھی حیران و پریشان نظر آئی ایک ایسی جماعت جو تیس برس اس شہر کراچی میں دھاندلی اور غنڈا گردی کر کے مسند اقتدار پر بیٹھی رہی ہو وہ بھی 8 فروری کے الیکشن کے ہونے والے نتیجے پر حیران و پریشان نظر آئی مجبوراً اْن کو بھی پریس کانفرنس کرنی پڑی اور مصطفی کمال ایم کیو ایم (پاکستان) سربراہ کے طور پر اپنے اْن ہواریوں کے ساتھ موجود تھے، یہ وہی مصطفی کمال ہیں جو دبئی سے روتے گاتے آئے تھے، اور جس ایم کیو ایم کو وہ بازاری پارٹی کا نام دیتے تھے برابر میں کھڑے خالد مقبول صدیقی جس کو وہ را کا ایجنٹ کہا کرتے تھے، آسماں دکھاتا ہے رنگ کیسے کیسے، آج انہی کے دست راست بنے کھڑے تھے، یا یوں کہہ لیں، (ہو گئے سب یکجاں پھر سے شہر خموشاں بسانے والے پھر سے)، راولپنڈی کی طرف قبلہ رْخ ہو کر دوران پریس کانفرنس اپنی فتح کا اعلان اس انداز سے کر رہے تھے کہ چہرے پر ہوائیاں اْڑ رہی تھیں، اپنے آقاؤں سے کہ رہے تھے جناب ہم پر رحم کریں بس اتنی سیٹیں کافی ہیں، اس دفعہ اتنے تو ہمارے پاس پولنگ ایجنٹ نہیں تھے، جتنی سیٹیں آپ نے ہمیں دے دیں، ہمیں شرمندہ مت کریں اتنی سیٹیں تو ہم غنڈہ گردی کر کے بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے، جتنی آپ نے ہم کو عطا کر دیں، اتنی بڑی مینڈیٹ کا تو ہم نے بھائی کے دور میں بھی نہیں سوچا تھا، لوگ ہمیں کیا کہیں گے جناب سیٹیں ساری چوری کی لی ہیں اور کہتے ہو ملک ایمانداری سے چلاؤ گے، جناب اعلیٰ کوئی احمق اور جاہل ترین شخص بھی ہماری بات کا یقین نہیں کرے گا، جناب اعلیٰ اس شہر کراچی کے لوگ تیس برسوں سے ہمارے ماضی سے واقف ہیں ہم نے اس روشنی والے شہر کراچی کو شہر خموشاں میں کیسے تبدیل کیا اس شہر کی سڑکوں کو کیسے کھنڈر بنایا، اس شہر میں بوری بند لاشوں کا کلچر ہم نے دیا، بھتا لْوٹ مار، کھالیں چھینا یہ سب ہماری روایت رہی ہیں جناب، پھر ہمارا ایسا کون سا عمل ہے جس کے باعث ہم پر اتنی کرم نوازی آخر اس کے عوض آپ ہم سے کون سا کام لینا چاہتے ہیں، یہ وہ فکریں تھیں جو ان کے چہروں سے دوران پریس کانفرنس نظر آرہی تھیں، ابھی جیت کی خوشیاں منا بھی نہیں پائے تھے کہ مصطفی کمال کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے نظر ائے کہ پیپلز پارٹی نے اْن کو بلا کر جس طرح اْن کی عزت افزائی کی وہ باعث شرم بھی ہے اور یہ بھی واضع کیا کہ ایم کیو ایم کا سارا مینڈیٹ جالی ہے لہٰذا آپ سے کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی آپ جا سکتے ہیں، اتنی سیٹوں کے بعد اتنی ذلت شرم کا مقام ہے، پھر کچھ ہی دن بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی اس جعلی مینڈیٹ کی تصدیق کر دی، یوں ایم کیو ایم جیت کر بھی ہار گئی، پھر وہی ہوا جو برسوں سے ہوتا آ رہا ہے ایم کیو ایم پاکستان کی قیمت میاں صاحب نے زیادہ اچھی لگائی یا پھر جنہوں نے جیتوایا اْن ہی کے حکم پر شہباز شریف کی گود میں ڈال دیے گئے، اور ایم کیو ایم پاکستان نئی نوکری مگر تنخواہ پرانی پر کام کرنے پر راضی ہو گئی، یہی اس جماعت کا ٹریک ریکارڈ بھی ہے، اقتدار کی ہوس اور اختیار کا ناجائز استعمال، ایم کیو ایم یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ صوبائی حکومت میں تو پیپلز پارٹی نے ہری جھنڈی دکھا دی اتنی سیٹوں کے بعد بھی آگر اپوزیشن میں بیٹھیں گے تو ہاتھ کچھ نہیں آئے گا نہ فنڈ ملے کا نہ اختیارات پھر عوام کو کیا منہ دکھائیں گے، سیاست کے سوداگر زرداری صاحب نے اس دفعہ ایم کیو ایم کو شہری حکومت سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کے باہر پھینک دیا، یوں پیپلز پارٹی کے پاس ایک بہترین موقع ہے کہ وہ شہری علاقوں میں کام کر کے خصوصاً ضلع وسطی میں اپنی بہترین کارگردگی دکھا کر اگلے الیکشن میں سیٹ بھی حاصل کر سکتی ہے، اور اس شہر میں اپنے قدم بھی جما سکتی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان کو 28 سیٹوں کی جیت کے باوجود نہ کچھ کام آیا نہ کچھ ہاتھ آیا اور شہر سے اپنا کنٹرول نکلتا بھی نظر آیا، ایک شکست خوردہ جماعت کے طور پر اپوزیشن میں بیٹھنا ان کی مجبوری بن گئی، کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان ایک ایسی بیساکھی پر کھڑی ہے جہاں مْسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس حکومت بنانے کے لیے نمبر پورے ہیں، مگر باوجود اس کہ مسلم لیگ ن نے ان کو اتحاد میں شامل اس لیے کر لیا کہ اب ایم کیو ایم پاکستان کی عوامی مقبولیت وہ نہیں رہی جو کبھی پہلے تھی، اب اس شہر کراچی میں ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہو گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا فی الحال ایم کیو ایم اس وقت ایک ایسی بند گلی میں کھڑی جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، جو جعلی مینڈیٹ دلواتے ہیں وہ رسوا بھی کراتے ہیں 2018 کا الیکشن اس کا واضع ثبوت ہے، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔