حصہ ہفتم
مندرجہ بالا عنوان کے تحت چھے اقساط شائع ہوچکی ہیں، اسی سلسلے کی ساتویں قسط درج ذیل ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ‘‘، بہت حرام خور (رشوت کھانے والے)‘‘، (المائدہ: 42) ’سُحت‘ میں وہ تمام صورتیں آجاتی ہیں، جن کے ذریعے حرام طریقہ سے دوسرے کا مال حاصل کیا جائے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا: ’سُحت‘ کا کیا معنی ہے، انہوں نے کہا: رشوت، پھر سوال کیا: فیصلے پر رشوت لینے کا کیا حکم ہے، انہوں نے کہا: یہ کفر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکام) کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں‘‘، (سنن کبریٰ للبیہقی) یہاں کفر کو ’کفرانِ نعمت‘ پر محمول کیا جائے گا۔
احادیث مبارکہ میں ہے: ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘، (ابن ماجہ) ’’:رشوت دینے والے، رشوت لینے والے اور ان دونوں کے درمیان دلالی کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے‘‘، (مستدرک) ’’فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘۔ (ترمذی) ہمارے عرف میں رشوت لینے والے کو ’راشی‘ کہا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت رشوت دینے والا ’راشی‘ اور رشوت لینے والا ’مُرتشی‘ کہلاتا ہے۔
نوٹ: اپنے جائز حق کو لینے یا اپنی جان ومال کو ظلم سے بچانے کے لیے یا حاکم وقت کے ساتھ اپنے کسی جائز حق کے حصول کی خاطر رابطہ استوار کرنے کے لیے رشوت دینا ہر گز عزیمت اور پسندیدہ بات نہیں ہے، یہ جواز اس اضطراری صورت کے لیے ہے کہ جائز طریقے سے اپنے حق کی مقدور بھر جدجہد کی ہو، مگر یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئی ہوں، جیسے: بعض سرکاری ملازمین ریٹائر منٹ کے بعد اپنی پنشن وصول کرنے کے لیے مہینوں یا برسوں دفتروں کے چکر لگاتے ہیں، مگر اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، بعض اوقات وفات پا جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں وہ اضطراری صورت پیدا ہوجاتی ہے، جہاں فقہائے کرام نے اپنا غصب شدہ یا دبایا ہوا جائز حق لینے کے لیے رشوت دینے کی اجازت دی ہے، مگر جو لوگ میرٹ کے خلاف منصب حاصل کرنے یا فائدے کے حصول کے لیے یا کسی کا حق مارنے کے لیے رشوت دیتے ہیں، یہ تمام صورتیں ناجائز ہیں۔
علامہ قاضی خان اوزجندی لکھتے ہیں: ’’جب قاضی رشوت دے کر منصبِ قضا کو حاصل کرے تو وہ (درحقیقت) قاضی نہیں ہوگا اور قاضی اور رشوت لینے والے دونوں پر رشوت حرام ہوگی، رشوت کی چار قسمیں ہیں: پہلی قسم یہی ہے یعنی منصِبِ قضا کو حاصل کرنے کے لیے رشوت، اس کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، (۲) کوئی شخص اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لیے قاضی کو رشوت دے، یہ رشوت جانبین سے حرام ہے، خواہ وہ فیصلہ حق پر ہو یا ناحق ہو، کیونکہ فیصلہ کرنا قاضی کی ذمہ داری اور فرض ہے، (اسی طرح کسی افسر کو اپنا کام کرانے کے لیے رشوت دینا بھی دونوں طرف سے حرام ہے، کیونکہ وہ کام کرنا اس افسر کی ڈیوٹی ہے)، (۳) اپنی جان اور مال کو ظلم اور ضررسے بچانے کے لیے رشوت دینا، یہ لینے والے پر حرام ہے، دینے والے پر حرام نہیں ہے (یہ اُس صورت میں ہے کہ اپنا حق حاصل کرنے کے تمام جائز طریقے اختیار کرنے کے باوجود ناکام رہا ہو)، پس اس صورت میں اپنے جائز مال کو حاصل کرنے کے لیے بھی رشوت دینا جائز ہے اور لینا حرام ہے، (۴) کسی شخص کو اس لیے رشوت دی کہ بادشاہ (یا حاکم) کے ساتھ اس کا معاملہ استوار ہوجائے، تو اس رشوت کا دینا جائز ہے اور لینا حرام ہے‘‘۔ (فتاویٰ قاضی خان)
رشوت کی ایک قسم حکام کا ہدیے اور تحفے لینا ہے، مختلف محکموں میں رشوت کے مختلف نام ہوتے ہیں، کہیں پر رشوت کو ہدیہ اور تحفے کا نام دیتے ہیں اور کہیں پر ’چائے پانی‘، بلکہ بعض ادوار میں اس کا نام ’’اکرام‘‘ رکھا گیا تھا، نام بدلنے سے رشوت کی حقیقت نہیں بدلتی، حدیث میں ہے: ’’رسول اللہ ؐ نے ایک شخص کو (عشر وزکوٰۃ کی وصولی کے لیے) عامل بنایا، سو جب وہ عامل اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو اس نے آکر کہا: یا رسول اللہ! یہ (مال) آپ کے لیے ہے اور یہ (مال) مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے، پس رسول اللہ ؐ نے فرمایا: تم اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھ گئے، پھر تم دیکھتے کہ تمہیں کوئی ہدیہ پیش کرتا ہے یا نہیں، پھر رسول اللہ ؐ شام کو نماز کے بعد کھڑے ہوگئے، پس آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعا لیٰ کی ایسی حمد وثنا کی جو اس کے شان کے لائق ہے، پھر فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جس کے سپرد ہم کوئی عمل کرتے ہیں، پھر وہ ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: یہ بیت المال کا حصہ ہے اور یہ وہ ہے جو مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، پس وہ کیوں نہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں جاکر بیٹھا رہا، پھر دیکھتا کہ کون اس کو یہ ہدیہ دیتا ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے! تم میں سے کوئی شخص (عشر، زکوٰۃ، صدقات) کے مال میں جو بھی خیانت کرے گا، وہ (سزا کے طور پر) قیامت کے دن وہ مال اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا، اگر وہ اونٹ ہو تووہ بڑبڑاتا ہوا آئے گا، اگر وہ گائے ہو تو وہ ڈکراتی ہوئی آئے گی اور اگر وہ بکری ہو تو وہ ممیاتی ہوئی آئے گی، پس میں نے اللہ کا حکم پہنچادیا ہے‘‘۔ (بخاری)
شمس الائمہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں: ’’قاضی ہدیے اور تحفے قبول نہ کرے، ہر چندکہ (اسلام میں) تحائف لینا اور دینا نہایت اچھی خصلت ہے، کیونکہ نبی ؐ نے فرمایا: ’’ایک دوسرے کو ہدیے دیا کرو تاکہ تمہارے درمیان محبت پیدا ہو‘‘، لیکن ہدیہ لینے کا یہ جواز اُس شخص کے لیے ہے، جو مسلمانوںکے حکومتی نظم میں کسی ذمہ داری پر فائز نہ ہو اور جو شخص کسی سرکاری ذمہ داری پر فائز ہو، جیسے قاضی اور حاکم وغیرہ، ان پر لازم ہے کہ یہ کسی سے ہدیے قبول کرنے سے احتراز کریں، خصوصاً اس شخص سے جو اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے اس کو ہدیے نہیں دیتا تھا، کیونکہ ہدیہ دینے والا کسی کا م یا فیصلے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ہدیہ دیتا ہے اور یہ بھی رشوت اور سُحت کی ایک قسم ہے‘‘۔ (المبسوط للسرخسی)
جب کسی سرکاری ملازم پر بدعنوانی کا الزام لگتا ہے تو اس کے خلاف انکوائری کمیٹی بنتی ہے اور انکوائری آفیسر مقرر ہوتا ہے، انکوائری آفیسرز کے لیے کسی سے کوئی ہدیہ لینا یا جس کی انکوائری ہورہی ہے، اس کے گھر میں کھانا کھانا رشوت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق نے سیدنا محمد بن مسلمہ کو سیدنا عمروبن العاص کی انکوائری کے لیے بھیجا تاکہ ان کے مال کو گن لے، جب وہ عمرو کے پاس آئے تو سیدنا عمرو بن العاص نے ان کے لیے بہترین کھانا تیار کرایا، محمد بن مسلمہ نے کھانے سے انکار کردیا، سیدنا عمرو بن العاص نے ان سے کہا: کیا تم ہمارے کھانے کو منع کرتے ہو، انہوں نے فرمایا: اگر تم مجھے مہمان کا کھانا پیش کرتے تو میں ضرور کھاتا، لیکن تم نے مجھے وہ کھانا پیش کیا ہے جو برائی کا نذرانہ ہے، خدا کی قسم! میں تمہارے ہاں پانی بھی نہیں پیوں گا‘‘۔ (العقد الفرید لابن عبدربہ) سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں ان کے چچا زاد کی طرف سے ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ نے لینے سے نکار کردیا، ہدیہ پیش کرنے والے نے کہا: نبیؐ ہدیہ قبول فرماتے تھے، تو آپ نے فرمایا: وہ آپؐ کے لیے ہدیہ تھا، لیکن آج ہمارے لیے رشوت ہے‘‘۔ (احیاء علوم الدین)
اس میں ان سرکاری ملازمین کے لیے عبرت ہے جواپنے افسران بالا کی خدمت میں اس امید پر ہدیے پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کو ترقی یا مراعات سے نوازیں، یہ بھی رشوت ہی کی ایک قسم ہے، اس لیے کسی منصب پر فائز شخص کے لیے اس قسم کے تحفے لینا جائز نہیں ہے، نبیؐ نے رشوت کا معاملہ طے کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ اکثر دفاتر میں کسی منصب پر فائز شخص خود رشوت کے معاملات طے نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے ماتحتوں سے یہ کام کرواتا ہے اور معاملات طے کرنے والا بھی اپنا حصہ وصول کرتا ہے، ہمارے ملک میں میڈیا پر کئی ایسے لوگوں کے نام آئے ہیں، جو معمولی عہدے پر ہوتے ہوئے کثیر سرمائے کے مالک نکلے۔