نیکی کا قرآنی تصور اور ہمارے تضادات

728

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ ہم اسلام کو چاہتے بھی ہیں لیکن اس کی مکمل تعلیمات پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات میں شعور اور علم کی کمی اور سب سے بڑھ کر تصور آخرت کی حقیقی روح سے ناآشنائی اور محرومی ہے۔ ہمارے اطراف کتنے تھے جن کے ساتھ ہم اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، کھیلتے اور قہقہے لگاتے تھے۔ اب وہ صرف خیالات اور تصورات میں ہمارے ساتھ ہیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی ہماری خواہش یا تصور ہے کہ دنیا سے سب چلے جائیں گے لیکن ہمیں شاید یہیں رہنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ قرآن سے اور تعلیمات رسول سے بحیثیت مجموعی ہماری دوری ہے۔ اسی تصور کا عکس ہماری دنیاداری اور اعمال میں بہت واضح ہے۔ معاشرے میں کچھ نے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں کے مذہبی پروگرام اور ویڈیو کے ذریعہ بظاہر دین سے اپنی دلچسپی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ کچھ مختلف تنظیموں کے زیر انتظام قرآن فہمی، تعلیم یا بیان سے منسلک ہیں۔ کچھ اور سلسلوں سے جڑ کر روحانی کیف، ورد اور وظائف سے ترجیحاً دنیاوی مشکلات کے حل میں کوشاں ہیں۔ یہ سب کاوشیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ مجموعی طور سے معاشرہ میں عموماً نیکی کا اور تزکیہ کا تصور مختلف ہے اور اسی کے متوازی ہمیں کوششیں بھی مختلف ہی نظر آتی ہیں۔ قرآن کریم سورہ البقرہ کی آیت 177 میں نیکی کے تصور کی تفصیل ہے ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکواۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں‘‘۔ (بظاہر چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پری کے طور پرچند مقرر مذہبی اعمال کی انجام دہی اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے جو اللہ کے یہاں وزن اور قدر رکھتی ہے) اسی طرح سورہ التوبہ آیت 19 میں معاشرے میں رائج ایک تصور کی تصیح کی گئی ہے ’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا‘‘۔

اسی طرح تزکیہ کے حصول کا تصور ہے۔ مولانا مودودی نے تزکیہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’عربی زبان میں ’’تزکیہ نفس‘‘ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک پاک صاف کرنا، دوسرے بڑھانا اور نشونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے پس تزکیہ کا عمل دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعہ سے اس کو نشونما دیا جائے‘‘۔ دیکھا جائے تو اس کام میں اشکال اور دقتیں نہیں ہیں صرف دین کی سمجھ، نبی مہربان سے حقیقی عشق اور تعلیمات قرآن سے محبت درکار ہے۔ نبی مہربان کی تعلیمات جا بجا بتا رہی ہیں کہ نیکی اور تزکیہ کے لیے اصلاح معاشرہ کا فریضہ ادا کیا جائے لوگوں کی ذاتی داد رسی بھی اس کا حصہ ہے۔ سیرت کا مشہور واقعہ ہے۔ ایک انصاری نبی مہربان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی حاجت بیان کر رہے تھے اور نبی مہربان نے ان کے کل اثاثے منگا کر جو ان کے پاس صرف ایک ٹاٹ اور پیالہ تھا وہ فروخت کیے اور ان کی قیمت سے کلہاڑی خرید کر اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک کر دیا اور انہیں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کے کاروبار کے لیے رہنمائی دی اور کہا کہ اب تم میرے پاس 15 دن کے بعد آنا اور پھر جب وہ آئے تو وہ انصاری حاجت مند نہیں تھے بلکہ اپنے قدموں پر کھڑے تھے۔ یہ تھا نبی مہربان کا تزکیہ نفس۔ اس طرح عمل پیرا ہونے سے فرد اور معاشرہ کے تزکیہ کے نتیجے میں نیک اور پاکیزہ معاشرہ کے قیام کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔

ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم نبی مہربان کے اسوۂ مبارک کے ان مقامات سے صرف وعظ سنتے ہوئے گزر جاتے ہیں جن کا تعلق سعی اور جہد سے ہے۔ دیکھا جائے تو غار حرا سے نور اور روشنی کا شروع ہونے والا سفر فتح مکہ اور منزل کی طرف مسلسل رہنمائی ہے۔ نیکی، تزکیہ اور اس کی حقیقی روح سے شناسائی یہ سب اتباع رسول ہی سے ممکن ہے جو کہ وقتی یا جزوی یا اپنی پسند کے مطابق اطاعت کا نام ہرگز نہیں۔ جہاں بہت معروف اور آسان نیکیاں ہیں وہیں اتباع رسول میں مقام بدر بھی ہے اور سفر ہجرت میں سراقہ سے کنگنوں کا وعدہ بھی ہے۔ اسی راستے میں معرکہ تبوک بھی آتا ہے اور تزکیہ اور جہاد سے ایک ایسے صالح معاشرہ کے قیام کی کوششیں جیسے ایک سوال کے جواب میں نبی مہربان نے فرمایا تھا ’’(اے خباب) اللہ تعالیٰ ضرور اس کام کو پورا کر ے گا یہاں تک کہ ایک اکیلی عورت سونا اچھالتی ہوئی صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گی اور اسے ڈاکوؤ ں کا خوف نہ ہو گا‘‘۔ یہ نبی کریم کا وژن تھا کہ مایوسی کو امید میں بدل رہے تھے اور آنے والے دور کا پر امید نقشہ اپنے اصحاب کے سامنے کھینچ رہے تھے۔ ہمارا تضاد یہ ہے کہ ہم اتباع رسول پر کامل عمل پیرا نہیں۔ اس کیفیت کو سورہ بقرہ آیت 85 میں بیان کیا گیا ہے ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘۔ ہماری منزل فتح مکہ تو ہے لیکن راستے کے سارے کٹھن مرحلوں سے ہم صرف نظر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اسی لیے فتح مکہ تو بہت دور کی بات ہے بحیثیت قوم ہم ابھی تک اپنی منزل کی درست سمت بھی متعین نہیں کر پائے ہیں۔

ایک مسلمان جو کچھ دین سیکھتا ہے اور قرآن کا فہم حاصل کرتا ہے اگر اس علم کے مطابق اصلاح معاشرہ میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو پھر اس کے کتاب اللہ سے رشتے کو اور اتباع نبی مہربان کو کیا نام دیا جائے گا؟ معاشرے کا ایک بڑا دین دار طبقہ اپنی ذاتی نیکی پر قانع اور ’’نہی عن المنکر‘‘ جیسے فریضہ کی ادائیگی سے اپنے آپ کو بظاہر بری الذمہ قرار دیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے آج معاشرہ ظلم وستم فساد اور ایک دوسرے سے زیادتی سے بھرا ہوا ہے۔ خدانخواستہ اس جرم کی پاداش میں ہمارا پورا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی پکڑ میں نہ آجائے۔ گلی محلوں میں ہمارے پڑوس اور معاشرہ میں بے حد و حساب برائیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ دینی تعلیمات کے انحراف کا نتیجہ ہے۔ آخر اصلاح معاشرہ جیسی نیکی میں ہم اپنا کردار کب ادا کریں گے؟۔ اصلاح معاشرہ کے حوالے سے اس طرح کے معاملات سے لا تعلقی قرآن و سنت کے احکامات سے متضاد ہے۔