لاہور ایک بڑا شہر ہے۔ زندہ دلان لاہور ہے پھر اچھرہ بازار شہر کا بڑا بازار ہے۔ جہاں پر واقعہ پیش آیا کہ عربی رسم الخط میں پرنٹ ہوئے لباس کو دیکھ کر کچھ لوگ خاتون کو دھمکانے لگے کہ یہ قرآن کی آیات ہیں جو وہ پہنے ہوئے ہیں۔ یہ توہین رسالت ہے، حیرت ہے کہ اس بڑے شہر کے بڑے بازار میں لوگ حقیقت جانے بغیر کہ لباس پر کیا لکھا ہے ایک عورت کو دھمکانے لگے۔ ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ جن مولوی صاحب کو بلایا گیا وہ بھی اس کے جرم پر غور کیے بغیر خاتون کو معافی مانگنے اور لباس تبدیل کرنے کے لیے زور دینے لگے۔ بعد میں یہ پتا چلتا ہے کہ وہ خود بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ مسجدوں کی امامت کے لیے کسی کو بھی مقرر کردیا جاتا ہے بغیر کسی قابلیت کے صرف قرآن پڑھنا اور امامت کرنا کافی سمجھا جاتا ہے حالاں کہ امامت خود ایک لیڈر شپ کا نام ہے لیکن مذہب ہو یا سیاست یہاں آپ کو ایک سے ایک جاہل اور پڑھے لکھے جاہل ملیں گے۔ بہرحال بہت خوب کے پولیس وقت پر پہنچی۔ خاتون کو بچایا۔ مشتعل عوام کو سنبھالا کہ یہ بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے، ڈر ہوتا ہے کہ وہ آپ ہی پر نہ اُلٹ پڑیں کہ توہین مذہب آسان طریقہ ہے کہ جس سے ہجوم کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ ہجوم میں ہر فرد اپنے کسی بھی رویے کے لیے خود کو محفوظ تصور کرکے وہ کچھ کرتا ہے جو تنہا ہونے کی صورت میں ہرگز کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔
پرتشدد ہجوم میں لوگ انفرادی طور پر سب کے ہم نوا بن کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود وہ کرتے ہیں جو سارا ہجوم کررہا ہوتا ہے۔ ہجوم کے کیے جانے والے کسی بھی عمل کی ذمے داری کسی ایک فرد پر عائد کرنا مشکل ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہجوم میں شامل ہونے کے باعث آپ کو سزا نہیں ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہجوم خود عدالت لگا کر سزا دینے پر کیوں تیار ہوجاتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں قانون کو اپنے ہاتھوں میں کیوں لیتا ہے؟ اس کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر سے یقین اُٹھ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود فوری طور پر بہتر انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑھتی ہوئی فرسٹریشن اور عدم برداشت ہے، غصہ کسی پر ہوتا ہے اور نکالا کسی اور پر جاتا ہے یہ عدم برداشت کا رویہ کوئی راتوں رات نہیں پیدا ہوا اس کے پیچھے بہت سے عوامل کے ساتھ کئی دہائیوں کا سفر بھی ہے۔ جہالت تو پہلے بھی تھی غربت اور محرومی کے حالات پہلے تو آج سے زیادہ تھے۔ نہ معلوم کون کون سے موڑ طے کرکے ہم آج اپنی سمت ہی کھو بیٹھے ہیں۔ سوچیے کہ اپنے بچپن میں ہم کھانے پینے سے لے کر پہنے اوڑھنے اور گھر کی دیگر آسائشات میں آج کے دور سے کتنے پیچھے تھے۔ والدین ایک سادہ سالن وہ بھی بغیر گوشت کا بنا کر بچوں کے سامنے رکھتے تھے تو بچے بغیر کوئی اعتراض کیے کھا پی لیتے تھے۔ ایک طرح کے پرنٹ کا تھان لڑکیوں کے لیے اور ایک سادہ کپڑے کا تھان کسی بھی رنگ کا سال میں دو دفعہ آجاتا تھا اور سب کے کپڑے اس سے بن جاتے تھے۔ جس کو بلاتکلف سب ساتھ پہن بھی لیتے۔ اے سی تو چھوڑیے پنکھے بھی گھر کے سارے کمروں میں نہیں ہوتے تھے۔ آج وہ سب سادگی آپ کو نہیں نظر آئے گی۔ غلط سمت کے جو موڑ ہم نے انجانے میں طے کیے ان میں سب سے زیادہ ٹیڑھا راستہ میڈیا نے لیا۔ جہاں ایک طرف ڈراموں اور فلموں کے ذریعے ہر غلط راہ کو خوبصورت گلیمرائز کرکے دکھایا گیا، ظالم اور مظلوم کی کہانی جس میں عشق و عاشقی کا تڑکا لازم ہوتا ہے۔ مارننگ شوز جس کو دیکھنے والی خواتین ہوتی ہیں انہیں فیشن، شوبز، بیوٹی ٹپس اور مختلف رسوم کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں حالاں کہ یہ صبح کا وقت مائوں کی تربیت کے لیے ہونا چاہیے، اُن کی ذہنی فکری تربیت کرنی چاہیے، انہیں اپنے بچوں میں اچھے اوصاف اجاگر کرنے کے گُر سکھائے جانے چاہئیں۔ لیکن افسوس کے میڈیا اپنی قوم کی مائوں کی تربیت کے بجائے پیسے کے حصول پر توجہ دیتا ہے۔
ایک مقابلہ بازی یہاں سکھائی جارہی ہوتی ہے اور ایک ہمارا تعلیمی نظام تربیت دے رہا ہوتا ہے۔ افسوس تعلیمی ادارے بزنس کررہے ہیں، والدین بچوں کو نمبروں کے ذریعے اپنی توقعات پر اُترنے کے لیے کہتے ہیں۔ بچے بھی آج کل کے بچے ہیں وہ پھر اس مقابلے میں راستے کی ہر رکاوٹ کو کسی بھی طرح عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ساری اگلی پچھلی کمی پوری کرنے کی قسم کھالی ہے۔ بچے ہاتھوں میں موبائل لیے نئی دنیا میں سرچ کررہے ہوتے ہیں، والدین الگ اپنے فن ٹائم میں موج کررہے ہوتے ہیں۔ مکالمے بات چیت گفتگو جس کے ذریعے بہت سارے مسائل حل ہوتے تھے عنقا ہیں۔ مل کر کھانے کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ دستر خوان جہاں باتوں باتوں میں بہت سی باتوں کی اصلاح کی جاتی تھی خوشی غم کے لمحے بانٹے جاتے تھے۔ اپنائیت کا ذائقہ لمحہ لمحہ کشید کیا جاتا تھا۔ اب مشکل سے میسر آتا ہے۔ عدم برداشت کے خاتمے کے لیے معاشرے کے موثر طبقات کو برداشت دکھانی ہوگی۔ والدین اور اساتذہ دونوں بہت مقدس مقام رکھتے ہیں۔ انہیں نئی نسل کے ساتھ اپنے رشتے مضبوط بنانے ہوں گے پُرخلوص محبت کے ساتھ اپنے ایسے رشتوں کو اون کرنا ہوگا، اپنے قریب سمیٹنا ہوگا۔ احساس دلانا ہوگا کہ آپ سب ہمارے لیے نہایت اہمیت رکھتے آپ کی خوشی غم اور غصہ سب کو ہم سمجھتے ہیں۔ سمجھ کر توجہ دیتے ہیں، آپ کے لیے اپنی ذات کو پیچھے رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ معاشرے میں ہر فرد اپنی اصلاح کی طرف توجہ دے، دوسروں کو بدلنے میں زور نہ لگائے، اپنی خامیوں اور دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھی جائے، ہر شخص کو درست بات بتانا اچھی بات ہے لیکن اسی حد تک رہا جائے۔
ہر انسان کو اس کی سوچ اور عقیدے کے مطابق رہنے دینا چاہیے، اپنا پیغام اور موقف ضرور بتائیں لیکن کسی کو زبردستی اپنی زندگی بدلنے پر مجبور نہ کریں، قرآن کا رسولؐ کو بھی یہی پیغام ہے ’’اے نبیؐ! آپ کا کام صرف پیغام پہچانا ہے لوگوں کو بدلنا نہیں کیوں کہ لوگوں کو بدلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔