آپ مانے یا نہ مانے مسٹر مرتضیٰ وہاب کراچی کے منتخب میئر ہیں اور پیپلز پارٹی نے ان کا انتخاب اس وقت ہی کر لیا تھا جب ان کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا اور پیپلز پارٹی یہ بھی جانتی تھی کہ اس نے ماضی میں اہل کراچی کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں تو اس کے نتیجے میں مرتضیٰ وہاب کا میئر کراچی بننا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے جس کے لیے جیالوں نے سوچ بچار کے بعد پہلے بلدیاتی قوانین میں جمہوریت کی روح کو مسخ کر کے ایوان کی اکثریت کو حاضرین کی اکثریت میں تبدیلی کا قانون پاس کرایا پھر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی گئی مگر پھر بھی واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی تو منتخب ارکان کو اسمبلی میں جانے سے روکنے کے لیے دھونس، دھمکی، لالچ اور پکڑ دھکڑ کا عمل شروع کیا گیا اور یوں حاضرین کی اکثریت سے قانون کی پاسداری عمل میں آئی۔ اب ان کو میئر تسلیم کر لینا ہی چاہیے کہ وہ قانونی طریقے سے میئر منتخب ہوئے ہیں ان کو صرف تحریک عدم اعتماد ہی سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اب ان کے لیے میدان خالی ہے اور وہ جہاں چاہیں لوٹ لگائیں۔ مرتضیٰ وہاب کی پشت پر بلاول زرداری کا ہاتھ ہے یہی وجہ ہے کہ جب کراچی پانی میں ڈوبا ہوا تھا تو بلاول زرداری اپنے انتخابی جلسوں میں باور کرا رہے تھے کہ دیکھیے کراچی میں 75 ملی میٹر بارش ہوا مگر مرتضیٰ وہاب نے اس کو چند گھنٹوں میں بہا دیا اور اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے مرتضیٰ وہاب کام کم اور بڑھکیں زیادہ ماررہے ہیں۔ موصوف اپنے ناقدین کی تیر اندازی کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم پر تنقید کرنے والے پہلے ہمارے ترقیاتی منصوبوں کو دیکھیں ہم جواباً عرض کرتے ہیں کہ مرتضیٰ وہاب صاحب پہلے خود بھی اپنے ترقیاتی منصوبوں کی طرف دیکھ لیتے۔
ہم یہاں ان کی توجہ کراچی کی قدیم آبادی ملیر کالونی (جو کہ اب ضلع کورنگی کا حصہ ہے) کی طرف کرانا چاہتے ہیں کالا بورڈ اور ملیر 15 اس کے دو داخلی راستے ہیں جو اس آبادی کو نیشنل ہائی وے سے ملاتے ہیں ان دونوں شاہراہوں کی ازسر نو تعمیر کا افتتاح 22 مارچ 2022 کو مرتضیٰ وہاب نے کیا تھا (جب وہ ایڈمنسٹریٹر کراچی ہوا کرتے تھے) اس منصوے کو عالمی ادارے کے تعاون سے مکمل کیا جانا تھا مرتضیٰ وہاب صاحب ایک تختی لگا کر ایسے مفرور ہوئے کہ میئر بننے کے بعد بھی ہنوز مفرورہی ہیں۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شاہراہ
از سرے نو تعمیر کی جاتی ہے تو اس کے برابر میں ایک عارضی سڑک تعمیر کر کے ٹریفک کو اس جانب منتقل کر دیا جاتا ہے اور اگر دو طرفہ سڑک ہو تو پہلے ایک سڑک ہموار کردی جاتی ہے پھر دوسری سڑک پر کام شروع کیا جاتا ہے اور یہ عارضی تعمیر بھی تخمینے کا حصہ ہوتی ہے مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا اور یوں اچھی خاصی رقم ادھر ادھر کردی گئی یہ وہ دور تھا جب ملیر میں داخلے کے چاروں راستے مخدوش تھے اور online سہولت دینے والوں نے بھی معذرت کررکھی تھی۔ تعمیر اچھے انداز میں شروع کی گئی اور یوں تقریباً ڈیڑہ دو سال میں صرف کالا بورڈ تا سعودآباد سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہوگیا اس کے ساتھ ہی سعودآباد تا ملیر 15 والی سڑک پر کام تو ساتھ ہی شروع کیا گیا مگر صرف نصف حصے پر (سعود آباد تا جناح اسکوائر) پر کام کا آغاز ہوا ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے مگر بعد میں ساری دال ہی کالی نکلی اس میں ایک جدت یہ کی گئی کہ سڑک پر کارپیٹنگ کے بجائے فٹ پاتھ پر لگائے جانے والے بلاک چن دیے گئے مگر یہ عمل بھی درمیان میں رک گیا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک راستہ کالا بورڈ والے پر تو ٹرانسپورٹ رواں دواں ہے صرف فٹ پاتھ بنانا باقی ہے پتھر لگا دیے گئے ہیں جو کسی وقت بھی ہلکی سی ٹھیس سے نالے میں گر سکتے ہیں سے جبکہ دوسرا راستہ ملیر15 کے نصف حصے پر بھی کام مکمل طور پر بند ہے۔
سال گزشتہ محرم الحرام کی آمد سے قبل ملیر 15 تا ناد علی تک کے دونوں ٹریک ہموار کر کے عارضی کارپیٹنگ کردی گئی جس سے ٹریفک کی روانی میں بہتری آئی مگر درمیان میں چند فرلانگ کا ٹکڑا (ناد علی تا جناح اسکوائر) کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا ان کے کیا مقاصد تھے اس کا تو ہمیں علم نہیں بہرحال اہل محلہ نے اتحاد اور اتفاق سے اس سازش کو ناکام بنا دیا مگر اب اس کا نقصان یہ ہوا کہ برسوں سے جو پبلک ٹرانسپورٹ بند تھی جس کے کچھ امید پیدا ہوئی تھی وہ پھر ماند پڑ گئی اور اہل علاقہ کو صرف پیپلز بس سروس کے دیدار کے لیے چنگ چی رکشہ یا چھوٹی منی گاڑیوں میں گھس پل کر نیشنل ہائی وے تک آنا پڑتا ہے اس وقت ملیر میں پیپلز پارٹی نے کلین سویپ کیا ہوا ہے قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار بر جمان ہیں اور صوبائی اسمبلی کی چھے کی چھے نشستیں بھی پیپلز پارٹی کے دائرہ اختیار میں ہیں ضلع ملیر کی چیئرمین شپ پہلے ہی سلمان مراد کے حوالے ہے جو اب ڈپٹی میئر کراچی بھی ہیں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے کی حالت نہیں بدلی جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملیر ضلع ملیر میں نہیں بلکہ ضلع کورنگی میں آتا ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب ہوں سعید غنی ہوں یا کوئی اور پارٹی کا لیڈر کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم اہل کراچی کی بلا تفریق خدمت کر رہے ہیں خود غور کریں۔ کیونکہ: ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔