راقم کا ارادہ تو یہ تھا کہ صوبہ سندھ کے اقتدار پر بلاشرکت غیرے گزشتہ 15 برس سے براجمان پاکستان پیپلزپارٹی نے جس طرح سے سندھ پبلک سروس کمیشن سمیت ہر صوبائی ادارے کو اپنی بدحکومتی اور بدعنوانی سے تباہی و بربادی سے دوچار کیا ہے اور جسے دیکھ کر بے اختیار بے مثال شاعر مرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر بے اختیار ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مُرغ قبلہ نما آشیانے میں
برسبیل تذکرہ! پی پی پی کا انتخابی نشان بھی کیوں کہ ناوک (تیر) ہی ہے، اس لیے مذکورہ شعر اس مناسبت سے اب اور بھی زیادہ پی پی کی سابق حکومت کے ’’کارہائے نمایاں‘‘ پر پورے طور سے منطق ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اب جبکہ تیسری مرتبہ بھی سندھ کی وزارت علیا کے منصب پر سید مراد علی شاہ ہی فائز ہوگئے ہیں تو ان کی ماضی کی حکومت کے تلخ تجربات کے پیش نظر اہل سندھ خود کو حکیم مومن خان مومن کا حسب ذیل شعر بے اختیار گنگنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
پھر بہار آئی وہی دشت نور دی ہوگی
پھر وہی پائوں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے
سید مراد علی شاہ خواہ پی پی کی مرکزی قیادت کے لیے کتنے ہی موزوں، مناسب اور گستاخی معاف! ’’کمائو پوت‘‘ ہوں، اہل سندھ کے لیے اتنے ہی زیادہ غیر موزوں بلکہ نقصان دہ ہیں۔ میرا اس موضوع مفصل پر تحریر لکھنے کا ارادہ محض اس لیے ادھورا رہ گیا کہ یارانِ دیرینہ ڈاکٹر مختیار احمد سدھایو اور پروفیسر محمد عیسیٰ ابڑو کا پیہم تقاضا ہے کہ صوبہ سندھ میں آئے دن منعقد ہونے والے ان غیر قانونی جرگوں پر بھی ایک تحریر لکھوں جن پر گزشتہ کئی برس سے نہ صرف عدالت عظمیٰ بلکہ عدالت عالیہ سندھ نے بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن اس کے باوصف آئے دن سندھ کے تقریباً ہر ضلع میں قبائلی بااثر سرداروں، وڈیروں اور مقامی بااثر شخصیات کی آشیرباد سے منعقد کیے جارہے ہیں۔
یہ جرگے غیر قانونی ہی نہیں بلکہ غیر منصفانہ بھی ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو خاصی حد مضحکہ خیز بھی۔ مثلاً ابھی چند دن پہلے ہی پی پی کے سیاسی گڑھ ضلع لاڑکانہ میں ایک مقامی بااثر وڈیرے کی جانب سے ایک شخص کو جرگے میں سنائے گئے اس فیصلے کا بڑا شہرہ اور اس پر بے حد تنقید ہوئی ہے کہ مبینہ ملزم نہ صرف فریق مخالف (مدعی) کو 90 لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کرے گا بلکہ اپنی دو بیٹیاں بھی اس کے خاندان میں بیاہ کر دے گا جو تا عمر اپنے والدین اور اہل خانہ سے ملاقات نہیں کرسکیں گی۔ بھلا اس طرح کا غیر منصفانہ اور مضحکہ خیز فیصلہ دنیا میں سوائے ہمارے ہاں کے کہیں اور بھی ہوسکتا ہے؟ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مذکورہ نوع کے عجیب و غریب اور ناقابل فہم فیصلوں پر انتظامیہ، پولیس اور سارے متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور مجال ہے جو وہ کبھی جنبش میں آسکیں اسی طرح سے گزشتہ سے پیوستہ سال جیکب آباد شہر میں دو مبینہ ملزمان پولیس مقابلے میں مارے گئے تو مقامی بااثر شخصیت نے جرگہ کے سرپنچ کے طور پر ان پولیس افسران اور اہلکاروں پر لاکھوں روپے فی کس جرمانہ عائد کیا، جو پولیس مقابلے میں ملوث تھے، بصورت دیگر پولیس اہلکاروں سے اگر مارے جانے والے ملزمان کے ورثا اگر پلان (بدلہ) لیتے تو وہ اس میں آزاد تھے۔ بہ امر مجبوری اپنی نوکری اور زندگی بچانے کے لیے پولیس افسران اور اہلکاروں کو جرگہ میں سنائی گئی جرمانے کی رقم مارے (کے ورثا) جانے والے ملزمان کے ورثہ کو ادا کرنی پڑی لیکن ذرا ٹھیریے! یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ یا فیصلہ نہیں بلکہ اس طرح کے جرگوں میں کیے گئے فیصلوں کا سنایا جانا ایک عام سی اور معمول کی بات ہے۔ جہاں خود پولیس افسران اور اہلکار غیر قانونی منعقدہ جرگوں میں سنائے گئے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کے پابند ہوں وہاں پر کسی عام فرد کی جرگوں میں سنائے جانے والے غیر منصفانہ فیصلوں سے انحراف کی جرأت اور ہمت کس طرح سے ہوسکتی ہے؟
ہفتہ رفتہ ہی سندھ کے ضلع نوابشاہ میں مبینہ طور پر منعقدہ اس جرگے کو سوشل میڈیا پر بڑی شہرت ملی ہے جس میں ایک شادی شدہ شخص کو جرگے کے سرپنچ نے یہ سزا سنائی کہ اس کی اہلیہ کو پسند کرنے والے ایک شخص نے خاتون کی جانب سے دھتکارے جانے پر عالم مایوسی میں بطور احتجاج خود اپنے ہاتھوں سے اپنا عضو خاص کاٹ ڈالا تھا۔ لہٰذا اب بطور سزا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ اس مضحکہ خیز فیصلے پر بھی بے حد لے دے اور تنقید کی گئی ہے کہ ایک شادی شدہ خاتون نے اپنی ناموس بچانے کے لیے جب ایک آوارہ اخلاق باختہ فرد کو دھتکارا اور اس کے ردعمل میں مسترد کردہ فرد نے خود اپنے خلاف انتہائی قدم اٹھایا ہے تو باعصمت اور باغیرت خاتون کے شوہر کو نام نہاد جرگے کے عقل و فہم سے پیدل سرپنچ نے ایسی غیر منصفانہ سزا آخر کس برتے پر سنائی ہے؟ اسی طرح سے 23 فروری کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’سوبھ‘‘ کراچی میں صفحہ اوّل پر نمایاں انداز میں چھپنے والی خبر کے مطابق غوث پور ضلع کندھ کوٹ کشمور میں سابق صوبائی وزیر سندھ مقبول شیخ کی سرکردگی میں منعقدہ جرگے نے مبینہ طور پر ایک جعلی پولیس مقابلے میں دو ملزمان کو ہلاک کرنے پر سابق ایس ایچ اور احمد نواز جکھرانی اور دیگر پولیس اہلکاروں پر ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ ملک میں عدالتوں کے ہوتے ہوئے قانون سے کیا جانے والا یہ مذاق قابل گرفت ہونا چاہیے۔