سیاسی یاجوج ماجوج (آخری حصہ)

552

حالیہ انتخابات کے بعد وطن ِ عزیز کی سیاسی صورتحال غیر یقینی ہوتی جارہی ہے سیاست دانوں کی خواہش ہے کہ انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے اکثر خواہشیں سرکش گھوڑے کی مانند ہوتی ہیں سوار کو زمین پر پٹخ دیتی ہیں۔ طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ خواہش مند کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ خواہش بڑی زرخیز ہوتی ہے افواہوں کو جنم دیتی رہتی ہے المیہ یہ بھی ہے کہ ان افواہوں پر توجہ بھی دی جاتی ہے اور بعض افواہیں تو کبھی کبھی خبر بھی بن جاتی ہیں۔

راولپنڈی کے کمشنر نے انکشاف کیا ہے کہ اْنہوں نے دھاندلی کر کے جیتنے والے اْمیدواروں کو ہرا کر ہارنے والے اْمیدواروں کو جتوایا ہے۔ جس نے اْن کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ضمیر بھی ملامت کر رہا ہے صورتحال اتنی پیچیدہ ہوگئی ہے کہ وہ خود کْشی کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں مگر مسلمان ہونے کے ناتے خود کْشی کر کے حرام موت مرنا نہیں چاہتا۔ سو موصوف نے مقتدر قوتوں سے اپیل کی ہے کہ اْنہیں پھانسی دے دی جائے تاکہ وہ باعزت موت مر سکیں۔ موصوف کا بیان ایک ایسا جھوٹ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اْنہوں نے اس معاملے میں چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ کو بھی ملوث کر لیا ہے۔ مگر چیف صاحب کا بیان کمشنر راولپنڈی سے بھی زیادہ حیران کْن ہے۔ فرماتے ہیں کہ الزام لگانا اْن کا حق ہے وہ اس کا ثبوت پیش کریں۔ تب ہی تحقیقاتی عمل بروئے کار لایا جاسکتاہے۔ ہم ایک عرصے تک یہ ہی سمجھتے رہے کہ الزام تراشی جرم ہے اور جرم کوئی بھی ہو قابل ِ تعزیر ہوتاہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ الزام تراشی حق ہے تو قابل ِ تعزیر کیسے ہوسکتی ہے؟ یادش بخیر گلگت بلتستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے چیف جسٹس پاکستان پر بھی الزام لگایا تھا کہ اْنہوں نے میاں نواز شریف کو من گھڑت مقدمات میں سزا دی تھی۔ اس معاملے میں بہت لے دے ہوئی مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے سوا کچھ نہ ہوسکا۔ اگر مذکورہ معاملے پر مٹی پاؤ جانے بھی دو کی روایات پر عمل نہ کیا جاتا تو آج کمشنر راولپنڈی پنڈورہ بکس نہ کھولتے۔

چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ کے ارشادِ گرامی پر غور کیا جائے تو بہت سے سوال اْٹھ کھڑے ہوتے ہیں اْن کے فرمان کے مطابق کوئی بھی الزام اْس وقت تک قابل ِ تعزیر یا قابل ِ تحقیق نہیں ہوتا جب تک ثبوت پیش نہ کیا جائے گویا اہمیت ثبوت کی ہوتی ہے اگر ثبوت اہم ہوتا ہے تو عدالتوں میں بغیر ثبوت کے اندراج مقدمہ کیوں کیا جاتا ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ اس مقدمے کی قانون کی نظر میں کیا حیثیت ہوتی ہے۔ اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جو مقدمات عدم ثبوت کی بنیا د پر خارج ہوتے ہیں اْن کی اپیلیں کس قانون کے تحت قابل ِ سماعت قرار دی جاتی ہیں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو وکلا جعلی مقدمات کو پیشی در پیشی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں جج صاحبان اْن کی سر پرستی کیوں کرتے ہیں؟

ہم نے بہاولپور کے ہائی کورٹ کے ایک ایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا تھا کہ جو مقدمات سول کورٹ اور سیشن کورٹ سے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہوجاتے ہیں ہائی کورٹ اْنہیں لے پالک کیوں بنا لیتی ہے یہ بھی دریافت کرنے کی جسارت کی تھی کہ جعلی مقدمات کی سماعت اور اْن کی اپیلوں کی منظوری مدعا علیہ کی بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔ حقوق کی پامالی قابل ِ تعزیر عمل ہے اس معاملے میں مدعا علیہ کی قانونی معاونت کس سے طلب کی جاسکتی ہے؟ جواباً رجسٹرا صاحب نے کہا تھا کہ اس معاملے میں کوئی بھی ادارہ معاونت نہیں کرسکتا ہم نے کہاکہ ایڈیشنل رجسٹرار کو ہائی کورٹ کا ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ سمجھا جاتا ہے سو اس حیثیت سے آپ کی ذمے داری ہی نہیں آپ کا فرض بھی ہے کہ جسٹس ایسے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے۔ ایڈیشنل رجسٹرار صاحب کا جواب بڑا حیران کْن تھا۔ اْنہوں نے کہا تھا کہ میں پیشی دلانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتا گویا ہائی کورٹ میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔