مذاکرات پر۔۔ اسرائیل کی ہاں اور ناں

610

غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا نے تیسری دفعہ ویٹو کردیا۔ یوں امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کے خلاف ویٹو کرنے کی ہیٹرک مکمل کرلی۔ اس قرار داد کے حق میں پندرہ میں سے تیرہ ووٹ آئے جب برطانیہ نے ووٹ نہیں دیا اور امریکا نے ویٹو کردیا، یہ قرار داد الجزائر کی طرف سے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی۔ الجزائر کے سفیر نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد کے اس مسودے کے حق میں ووٹ دینا فلسطینیوں کے جینے کے حق کی حمایت کرنا ہے اور اس کے خلاف ووٹ دینے کا مطلب وحشیانہ تشدد اور اجتماعی سزا کی توثیق کرنا ہے۔

امریکا ابتدا سے اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی حمایت کرتاچلا آرہا ہے۔ یہ امریکا ہی ہے جس کی مدد سے اسرائیل غزہ مغربی کنارے اور القدس میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کررہا ہے۔ اس سلسلے میں اسے عالمی ادارے انصاف کی بھی کوئی پروا نہیں۔ یقینا امریکا کی یہ پالیسی دنیا کے لیے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی کابینہ کے ایک رکن کہتے ہیں کہ اگر حماس نے رمضان شروع ہونے سے پہلے غزہ میں قید باقی یرغمالی رہا نہیں کیے تو غزہ اور رفح میں لڑائی جاری رہے گی۔ رفح میں غزہ سے آنے والے فلسطینیوں کی بڑی تعداد نے پناہ لے رکھی ہے۔ یہ جنوبی غزہ کی پٹی کا آخری حصہ ہے۔ اس کے بعد مصر کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل نے اس ہفتے کے دوران مذاکرات کے سلسلے میں خود کو علٰیحدہ کرنے کا بیان جاری کیا، یعنی مذاکرات سے دستبردار ہوگیا۔ لیکن اس کے فوری بعد نیتن یاہو کے دفتر سے بیان جاری کیا گیا کہ حماس اپنے موقف میں تبدیلی لائے تو مذاکرات میں آگے بڑھنا ممکن ہوسکے گا۔ یعنی ایک طرف اسرائیلی حکومت یرغمالیوں کے ساتھ سمجھوتے کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے دوسری طرف اسرائیل اپنی فوجی کارروائی کو وسیع کرنے اور رفح پر حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اس وقت رفح میں 14 لاکھ فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں جو غزہ کی کل آبادی کا نصف ہیں۔ غزہ کی جنگ اس وقت پانچویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ کھانے پینے کی بندش نے قحط کی صورت حال پیدا کردی ہے۔ لوگ جانوروں اور پرندوں کا کھانا کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہو کر جان سے جارہے ہیں۔ لہٰذا نیتن یاہو کے دفتر سے جنگ بندی کے مذاکرات سے الگ ہونے کے بیان کے بعد اسرائیل میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے۔ خاص طور سے حماس کے ہاتھوں یرغمال

اسرائیلیوں کے رشتے داروں کی طرف سے اس کو ایک مکروہ فعل قرار دیا گیا۔ اور اس کو یرغمالیوں کے لیے موت کی سزا کے برابر قرار دیا۔ اسرائیلی کابینہ کے رکن اور سابق آرمی چیف غادی آئزنکوت نے چار ماہ سے جاری جنگ پر اپنے بیان میں کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی جنگ بندی کے علاوہ کسی اور طریقے سے کرنے کا دعویٰ محض غلط تاثر کو پھیلاتا ہے۔ جبکہ وزیراعظم نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ جنگ کے ذریعے ہی یرغمالیوں کو رہا کروایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نیتن اور ان کے وزیر دفاع کہتے ہیں کہ حماس کی مکمل تباہی تک جنگ جاری رہے گی اور عسکری کارروائی کے ذریعے ہی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہے۔ تاہم اسرائیل کے اندر مبصرین نیتن یاہو کی اس حکمت عملی پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو یہ سب دراصل حکومتی سطح پر اپنی ناکامی کے خلاف تحقیقات سے بچنے، حکومتی اتحاد کو اکٹھا رکھنے اور انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے کررہے ہیں۔ اسرائیلی عوام مستقل حکومت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ چند دن قبل بھی اسرائیل میں مظاہرہ ہوا۔ جس میں وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی کرے اور فلسطینی زمینوں پر قبضہ ختم کرے اور ساتھ یہ بھی کہ لوگوں کا قتل کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور ہم فلسطینیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔ رفح پر حملے کے شدید انسانی المیہ کو یورپی یونین نے ناقابل بیان انسانی تباہی قرار دیا ہے۔ یعنی اب تک غزہ میں جو تباہی کی گئی وہ قابل بیان تھی۔ ظاہر اب تو اس تباہی کو بیان کرنے والے صحافیوں کو بھی قتل کیا جاچکا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’امریکا سمیت بین الاقوامی برادری کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبات کو مسترد کیا جاتا ہے۔ ایسا کوئی معاہدہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ لیکن مذاکرات کرنے پر خود آمادہ بھی نہیں ہے۔ فلسطینی ریاست اسرائیل کے دو اطراف غزہ اور مغربی کنارے پر قیام کی تجویز 2014ء سے التوا کا شکار ہے۔ اس وقت جبکہ حماس اسرائیل جنگ کا پانچواں مہینہ ہے امریکا اور دیگر ممالک جن میں یورپی ممالک اور عرب شامل ہیں اس لڑائی کو ختم کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبات کو دہرایا ہے۔ یورپی یونین کے نمائندے جوزف بوریل نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیل مسترد کرتا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دو ریاستی حل بین الاقوامی برادری کے دبائو کے ساتھ امن لائے گا اور اسرائیلی حکومت اس راہ میں واضح رکاوٹ ہے لیکن حکومتیں عارضی ہوتی ہیں۔ جرمنی کے ترجمان نے بھی ’’دو ریاستی حل کو امن کے لیے اہم قرار دیا‘‘۔ اگرچہ اسرائیل فلسطین سرزمین پر قابض ہے۔ لیکن اس وقت دو ریاستی حل امن کا راستہ ہے۔