سرعام پھانسی سے معاشرہ محفوظ ہوگا

716

سینیٹ نے بچوں کے ساتھ زیادتی کے ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کا بل پیش کرنے کی تحریک ہی مسترد کردی ہے۔ یہ بل ڈاکٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں پیش کیا تھا۔ سینیٹ کے ارکان نے اس بل کے حق میں 14 اور مخالفت میں 24 ووٹ دیے۔ سرعام پھانسی دینے کی مخالفت (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے کی۔ مخالفت کرنے والوں نے اس مخالفت کے حق میں دلائل بھی دیے، پیپلز پارٹی جس نے ہمیشہ سزائے موت کی مخالفت کی ہے، اس کی رہنما شیری رحمن کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی ایک سنگین جرم ہے لیکن سرعام پھانسی سے معاشرے میں وحشت اور تشدد پسند سوچ میں اضافہ ہوگا۔ ایک دلیل انہوں نے یہ بھی دی کہ سرعام پھانسی 21 ویں صدی کے معاشرے کو زیب نہیں دیتی۔ دوسرے الفاظ میں پھانسی کی سزا جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے کچھ اسی جیسے شدید جرائم میں مقرر کی ہے۔ وہ نعوذباللہ فرسودہ زمانے کی ہے اور آج کے جدید دور میں اس کا اطلاق ہی کرنا چاہیے۔ حالانکہ آج جن ممالک میں سرعام سزائیں دی جاتی ہیں وہاں جرائم کی شرح پوری دنیا کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔ یہ سزا معاشرے کے ایک انتہائی اہم اور تکلیف دہ مسئلے کا حل ہے۔ قصور کی کمسن بچی زینب جس کے نام پر زینب الرٹ بل بنایا گیا اس کے ساتھ ہونے والے دلخراش واقعے کو 4 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہی ہوا۔ صرف 2022ء میں ایک رپورٹ کے مطابق 4 ہزار 253 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک سال میں ان جرائم میں 33 فی صد اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزا نہیں دی گئی، نشان عبرت بنانے کے لیے تو چوکوں چوراہوں پر پھانسی دینا ہوگی۔ اگر آج بقول سینیٹر مشتاق کے چاروں صوبوں اور دارالحکومت میں 5 لوگوں کو سرعام سزا دے دی جائے تو پھر مزید سرعام پھانسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یوں بھی اسلام کے تحت قرآن میں سب کے سامنے سزا ہے، چھپا کر سزا دینا تو دین کے خلاف ہوگا۔ 2020ء میں زینب الرٹ بل کے تحت پہلی سزا سنائی گئی، یہ بچوں سے زیادتی کرکے ویڈیو بنانے اور اس کے ذریعے بلیک میل کرنے والے مجرم کو سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا ایک مجرم کو 10 سال قید اور دوسرے کو 50 ہزار جرمانے کی سزا تھی۔ جس بچے کو بلیک میل کیا اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ بھلا بتائیے کہ ایسے سنگین جرم پر یہ سزا کافی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں مجرموں کے چھوٹ جانے کی روایت بڑی پکی ہے۔ سانحہ موٹر وے کے اندوہناک واقعے میں کیا ہوا تھا؟ ایک ماں کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا یہ ساری عمر کے لیے ذہنی کرب اور اذیت کے صحرا میں تڑپ تڑپ کر جان دینا نہیں ہوا؟ دنیا میں آج بھی ان جرائم پر عبرتناک سزائوں کی مثال موجود ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں سرعام سرقلم کی سزائیں ہیں، مصر میں پھانسی ہے، افغانستان میں بھی سزائے موت ہے، جنوبی کوریا، چین، آسٹریلیا اور چند دیگر ممالک میں نامرد بنانے کی سزا ہے، حالانکہ اس طرح مجرم کو مزید جنونی مجرم بننے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مجرموں کو سزا تک پہنچانے کے لیے تفتیش کا عمل اتنا کمزور اور طویل ہے کہ مجرم سزا سے صاف بچ نکلتا ہے۔ ان مقدمات میں بچوں کے والدین اور خواتین عدالت کے دھکے کھاتی رہ جاتی ہیں۔ عین 2020ء میں جس وقت زینب الرٹ بل منظور ہوا تھا اس وقت ایک ڈھائی سالہ زینب نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ اس بچی کے قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ عبرتناک سزا کے ساتھ اس طرح کے واقعات کی وجہ بھی ڈھونڈی جائے۔ ماہر نفسیات اس معاملے میں دو نکات اہم قرار دیتے ہیں، ایک خاندان کا ماحول اور دوسرا دوستوں کی صحبت۔ چنانچہ والدین اپنے بچوں کے لیے بہتر ماحول فراہم کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو اچھی صحبت میں رکھنے کے لیے قرآن کی کلاس میں شرکت کریں۔ کیونکہ بچوں سے پہلے والدین کا سیکھنا ضروری ہے۔ تب ہی والدین اپنے گھر کے ماحول کو ٹھیک رکھ سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انسان فطری طور پر نیک ہوتا ہے۔ وہ دیانت داری، عدل و انصاف اور شرم و حیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے۔ اگر کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے یا شرم و حیا سے عاری حرکت کرتا ہے اور کوئی دوسرا اس کو جھوٹا، بے شرم یا بے حیا کہتا ہے تو وہ اپنے آپ کو سچا اور حیا والا ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگاتا ہے۔ بچوں کے اس بنیادی خیر کے عنصر کو طاقتور اور توانا کرنے کے لیے والدین کو اس سے زیادہ کوششیں اور جدوجہد کرنی چاہیے جتنی کے اپنے بچوں کو دنیاوی لحاظ سے قدآور بنانے کے لیے کرتے ہیں۔