پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں بڑی پیش رفت

431

 

پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ طویل عرصے سے زیر التوا ہے، لیکن اب خبر آئی ہے کہ پاکستان نے 15 سال بعد ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے اہم فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک 81 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی بارڈر سے گوادر تک پائپ لائن کی تعمیر پر 45 ارب روپے لاگت آئے گی۔ منصوبے کے لیے فنڈز گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سے فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پاکستان کو فراہم کی جائے گی۔ منصوبے کے تحت 1931 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جانی ہے جس میں 1150 کلو میٹر ایران اور 781 کلو میٹر پاکستان کے اندر ہوگی۔ منصوبے کے تحت پاکستان کو جنوری 2015ء میں گیس کی سپلائی ہونی تھی، تاہم اب تک منصوبہ مکمل نہ کیا جاسکا، اور کب تک مکمل ہوگا ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے۔ منصوبے کے تحت ایران پہلے ہی 900 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے، تاہم ایران کی جانب سے 250 کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر ہونا اب بھی باقی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر دونوں ممالک کے ملکی مفاد کا یہ اہم منصوبہ تاخیر کا شکار کیوں ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب کئی عوامل میں مضمر ہے۔ اس منصوبے کی طویل کہانی 1994ء میں شروع ہوئی جب پاکستان کو گیس کے ذخائر میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گیس کی درآمد ضروری سمجھی گئی۔ ایران نے پاکستان کے ساتھ 1995ء میں ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بعد ازاں ایران نے پاکستان سے بھارت تک پائپ لائن کو توسیع دینے کی تجویز دی اور فروری 1999ء میں بھارت کے ساتھ ایک ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے گئے، اس منصوبے کو ایران، پاکستان، انڈیا (آئی پی آئی) گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا اور بہت سے ماہرین نے اسے امن اور خوشحالی گیس پائپ لائن قرار دیا۔ پاکستان، بھارت اور ایران نے کئی ملاقاتیں کیں اور قیمتوں اور دیگر متعلقہ امور پر اتفاق کیا۔
اپریل 2008ء میں ایران نے اس منصوبے میں چین کی شرکت میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ اگست 2010ء میں ایران نے بنگلا دیش کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی، لیکن 2008ء میں بھارت نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے اور اگلے سال اس نے زیادہ قیمتوں اور سیکورٹی کے مسائل کے بہانے اس منصوبے سے دست برداری اختیار کرلی، تاہم مارچ 2010ء میں ہندوستان نے پاکستان اور ایران سے سہ فریقی مذاکرات مئی 2010ء میں تہران میں منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔ جنوری 2010ء میں امریکا نے پاکستان سے پائپ لائن منصوبے کو ترک کرنے کو کہا اور اس منصوبے کو منسوخ کرنے کی صورت میں پاکستان میں مائع قدرتی گیس کے ٹرمینل کی تعمیر اور افغانستان کی واخان راہداری کے ذریعے تاجکستان سے بجلی درآمد کرنے میں مدد کی اُمید دلائی۔ تاہم پاکستان اور ایران نے 16 مارچ 2010ء کو انقرہ میں ہونے والی میٹنگ میں آئی پی گیس پائپ لائن پر ایک حتمی معاہدے پر دستخط کیے، لیکن پھر 2012ء میں ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گیا۔ اکتوبر 2018ء میں ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ایری لاریجانی نے پائپ لائن کی تعمیر میں تاخیر کے لیے ایران پر امریکی پابندیوں کے جاری خطرے کو ذمہ دار ٹھیرایا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران بہت زیادہ پْرجوش ہے کہ وہ یہ گیس پائپ لائن پاکستان تک ڈالے، لیکن امریکی پابندیوں اور امریکی دبائو کی وجہ سے ہماری حکومتوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ ایران نے بہت پہلے یہ کیا کہ پاکستان سے معاملات طے ہونے کے بعد ہماری سرحد تک انہوں نے اپنی پائپ لائن ڈال دی، اور جو ہمارا ارادہ تھا کہ ہم اس کو نواب شاہ تک ڈالیں گے وہ کام ہم نے ابھی تک شروع نہیں کیا ہے، اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پائپ لائن کو نواب شاہ تک لانے کا ارادہ ترک کردیں، اب اسے گوادر تک لے لیں اور وہیں سے اس کو استعمال کریں تاکہ فوری طور پر کام ہوسکے اور پروجیکٹ آگے بڑھ سکے، لیکن امریکی دبائو کی وجہ سے یہ کام نہیں ہورہا۔ اب معاہدے کے تحت اگر ایران چاہے تو پاکستان پر خطیر رقم کا جرمانہ کرسکتا ہے۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے لیکن ایران نے ابھی تک ہم سے یہ نہیں کہا کہ آپ وہ جرمانہ ادا کریں، مگر یہ جو ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی ہوئی ہے تو خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت ایران اپنی پالیسی بدل سکتا ہے اور وہ ہم سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ آپ جرمانے کی رقم ادا کریں کیوں کہ آپ نے معاہدہ پورا نہیں کیا۔ تو لگتا ہے کہ اس سے بچنے کے لیے پاکستان یہ پائپ لائن ڈال رہا ہے، کہ جس طرح ایران نے ڈالی ہے ہم بھی ڈال دیں تاکہ اگر کبھی جب یہ منصوبہ شروع ہو تو فوری کام شروع ہوسکے۔ دوسری طرف ایران کا جرمانے کا مطالبہ کبھی سامنے آتا ہے تو ہم اس سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو پائپ لائن ڈال دی ہے، آپ نے بھی ڈال دی اور ہم تو تیار ہیں مگر آپ کے اوپر پابندیاں ہیں اور عالمی قوانین اجازت نہیں دے رہے تو ہم اس سلسلے میں مجبور ہیں، مگر ہم نے اپنے حصے کا کام کرکے پائپ لائن ڈال دی ہے۔ یہ جواز ہمارے پاس ہوگا۔ یہ ایک قانونی پوزیشن ہے، لیکن ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہم عالمی اداروں کے پاس جائیں، بات کریں، کیونکہ ہم عالمی قوانین کے تحت یہ کہہ سکتے ہیں کہ پابندیوں کے باوجود چونکہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، ہماری معیشت اور عوام کو تکالیف ہیں، اس لیے ہمیں استثنا دیا جائے جس کی قانون میں گنجائش موجود ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ پائپ لائن ڈالنا ہماری ضرورت ہے، یہ ایک اچھا کام ہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ ہمیں یہ کوشش کرنے کے لیے اقداما ت اٹھانے ہوں گے کہ پابندیوں کے باوجود گیس پائپ لائن کے عمل کو آگے بڑھا سکیں۔ اس ضمن میںیہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ جب گزشتہ ماہ 29جنوری کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان پاکستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں اور پاک ایران گیس پائپ لائن پر جرمانے کے حوالے سے خبریں غلط ہیں۔ اس کے ساتھ وزیر خارجہ کی یہ بات بھی اہم تھی کہ پاکستان کے مطابق یہ پروجیکٹ اس لیے آگے نہیں بڑھ رہا کیونکہ ایران پر پابندیاں ہیں، تو ان کا مشورہ تھا کہ پاکستان، گیس پائپ لائن پر چین اور روس سے بات کرے، یہ مالی مدد بھی دے سکتے ہیں، تاکہ امریکی دبائو کا سامنا کیا جاسکے۔ ہمارے خیال میں یہ بڑاصائب مشورہ ہے، اگر چین اور روس اس میں آگے بڑھیں تو یہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے پاکستان ہمت کرسکے گا؟ اور وہ امریکا کے خلاف جاسکے گا؟ یہ بہت اہم سوال ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی اور تجارتی نقطہ نظر سے چیلنجز کے باوجود آئی پی گیس پائپ لائن پاکستان کے مفاد میں ایک بہترین اور قابل ِ عمل آپشن ہے۔