نواز شریف کے لیے اب کیا آپشن ہے؟

638

بودھ مت کے قدیم لٹریچر کے مطابق مہاتما بودھ نے تنگ آ کر گیا میں برگد کے درخت کے نیچے قدرت سے آخری جنگ شروع کر دی‘ اس کی ضد تھی میں نہیں یا پھر میرا سوال نہیں‘ قدرت کو 21 دن بعد مہاتما کی ضد پر پیار آگیا اور اس نے مہاتما سے پوچھا ’’بتاؤ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ مہاتما نے صرف ایک سوال کیا ’’انسان دکھی کیوں ہے؟‘‘ قدرت نے مسکرا کر جواب دیا ’’خواہش‘‘ مہاتما نے لمبی سانس لی اور اپنا بھرت توڑ دیا۔ بودھ کے پیروکار صرف اس ایک لفظ ’’خواہش‘‘ کو نروان کہتے ہیں‘ پورا بودھ مت صرف ایک فلسفے پر کھڑا ہے اور وہ فلسفہ ہے خواہشات‘ ان کا کہنا ہے انسان کے دکھ اور خواہشیں ’’ڈائریکٹلی پروپورشنل‘‘ ہیں۔ خواہشیں بڑھیں گی تو دکھ بھی بڑھ جائیں گے اور خواہشیں کم ہوں گی تو دکھ بھی کم ہو جائیں گے‘ یہ ممکن ہی نہیں آپ اپنی خواہشیں بڑھائیں اور آپ کے دکھوں میں اضافہ نہ ہو چناں چہ آج بھی جب دکھوں کے مارے ہوئے لوگ بودھوں کے پاس آتے ہیں تو یہ انہیں دو چادریں، لکڑی کی کھڑاویں اور ایک جھولا (تھیلا) دیتے ہیں اور اس شخص کا اسٹریس لیول صفر پر آ جاتا ہے۔

مہاتما بودھ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا مہاتما میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میں اس کے باوجود کیوں پریشان ہوں؟ مہاتما نے مسکرا کر جواب دیا ’’تم جب دس من کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر پھرو گے تو پھر تمہیں خوشی کیسے ملے گی؟‘‘ اس نے کہا مہاتما میرے سر پر تو کوئی گٹھڑی نہیں‘ مہاتما نے مسکرا کر کہا ’’نہیں تمہارے سر پر خواہشوں کی بہت بڑی گٹھڑی ہے، تم اسے سر سے اتار دو تمہاری پریشانی آج سے ختم ہو جائے گی‘‘۔

مجھے آج نواز شریف بھی خواہشوں کی گٹھڑی تلے دبتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں، میاں صاحب حقیقتاً ہماری تاریخ کے طلسماتی کردار ہیں، آپ ان کی سیاسی گروتھ دیکھیں یہ 1981 تک محض لاہور کے ایک صنعت کار کے صاحب زادے تھے، یہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور چار سال بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ اور مزید پانچ سال بعد وزیراعظم تھے‘ ان کو تین بار اقتدار سے نکالا گیا اور یہ تین بار ہی واپس آئے، انہیں نکالنے والے دربدر ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے مگر یہ ہر بار زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئے۔ اس شخص نے پرفارم بھی کیا، آپ موٹروے سے سی پیک تک ملک کا کوئی بڑا منصوبہ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس کے پیچھے نواز شریف نظر آئے گا‘ آپ ان کی سفارت کاری بھی دیکھ لیں‘ 1999 میں اٹل بہاری واجپائی بس پر بیٹھ کر لاہور پہنچ گیا اور اس نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر پاکستان کو تسلیم بھی کیا اور آگے بڑھنے کا اعلان بھی کیا، وہ نریندر مودی جو عمران خان کی کال سننے کے لیے تیار نہیں تھا وہ چل کر نواز شریف کے گھر آیا اور 70 سال کے مسئلے حل کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ نواز شریف کی وجہ سے سعودی عرب پاکستان کو مفت پٹرول دیتا رہا اور عرب ہماری اکانومی کو سہارا دینے کے لیے اپنے اربوں ڈالر ہمارے اسٹیٹ بینک میں بھی پارک کرتے رہے۔

دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود چینی صدر نے پاکستان میں سی پیک بھی شروع کیا‘ آج بھی اگر کوئی شخص بھارت، امریکا، چین، روس اور عربوں کو پاکستان کے قریب لا سکتا ہے تو اس کا نام نواز شریف ہے۔ یہ پاک بھارت بارڈر بھی کھلوا سکتے ہیں اور یہ امریکی صدر کو بھی پاکستان لے آئیں گے چناں چہ پاکستان کی تاریخ اور موجودہ حالات میں نواز شریف جیسا ایک بھی شخص نہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے میاں نواز شریف 2024 کا الیکشن ہار چکے ہیں اور عوام نے انہیں عملاً مسترد کر دیا ہے۔ آج اگر لاہور کے این اے 130 کے فارم 45 کھل گئے تو میاں صاحب 16 ہزار ووٹوں سے ہار جائیں گے۔ میاں شہباز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف اور رانا تنویر کی صورت حال بھی مختلف نہیں۔ یہ حلقے بھی جس دن کھل گئے یہ سیٹیں بھی نکل جائیں گی۔ قومی اسمبلی کی 20سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہے اور میاں صاحب اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن اس کے باوجود خواہشات کی گٹھڑی انہیں پیچھے نہیں ہٹنے دے رہی۔ میں عمران خان کی گورننس اور فیصلوں کا ناقد تھا اور آج بھی ہوں لیکن اس کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا اور ان کی 125 سیٹیں بنتی ہیں چناں چہ اقتدار ان کا حق ہے اور جو بھی شخص، پارٹی یا عہدے دار اس مینڈیٹ کو نہیں مانے گا وہ ملک اور جمہوریت کے ساتھ زیادتی کرے گا لہٰذا میاں صاحب کو فوری طور پر دو کام کرنے چاہییں، انہیں اپنی شکست مان کر حافظ نعیم الرحمن کی طرح پی ٹی آئی کو ان کی نشستیں لوٹا دینی چاہییں اور کھلے دل کے ساتھ عمران خان کو حکومت بنانے کی آفر کرنی چاہیے۔ اس سے میاں صاحب اور ان کی پارٹی بچ جائے گی اور یہ ملک بھی چل پڑے گا۔ میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہیں یہ ان حالات میں حکومت نہیں چلا سکیں گے۔ سال چھے ماہ بعد ان کی پارٹی اور اقتداردونوں ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے لہٰذا یہ خواہشوں کی گٹھڑی نیچے رکھیں اور صحیح فیصلہ کریں‘ دوسرا یہ ٹھنڈے دل سے اپنی غلطیوں کا تجزیہ کریں‘ یہ اگر آج غیر جانب داری سے سوچیں گے تو یہ مان لیں گے انہوں نے ’’کراؤن پرنس‘‘ کی لانچنگ کی وجہ سے پارٹی اور مینڈیٹ دونوں ضایع کر دیے۔

یہ پہلے بھائی کو وزیراعظم بنانے کے چکر میں مار کھا گئے اور پھر یہ اپنی قیادت حمزہ شہباز اور مریم نواز کو ٹرانسفر کرتے ہوئے اس لیول پر آ گئے جہاں اب یہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر اپنی سیٹ بھی نہیں نکال پا رہے اور اس سفر میں یہ جاوید ہاشمی‘ چودھری نثار اور شاہد خاقان عباسی جیسے مخلص ساتھی بھی کھو بیٹھے۔ آخر ان لوگوں کا میاں صاحب سے کیا اختلاف تھا؟ یہ ہاتھ باندھ کر بچوں کے پیچھے کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں تھے چناں چہ تسبیح کے یہ دانے نکل گئے۔ یہ درست ہے زیادہ نقصان ان لوگوں کا ہوا لیکن ان کے بعد تسبیح بھی تو تسبیح نہیں رہی، میاں صاحب بھی تو اکیلے رہ گئے لہٰذا آج میاں صاحب کے پاس کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو انہیں یہ بتا سکے آپ ہر میٹنگ میں اپنے دائیں بائیں میاں شہباز شریف، مریم نواز، اسحاق ڈار اور حمزہ شہباز کو بٹھا لیتے ہیں اس سے عوام کو یہ تاثر ملتا ہے آپ کی پارٹی، پارٹی نہیں، بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے اور اس بورڈ میں بھی صرف فیملی کے لوگ رہ سکتے ہیں۔ میاں صاحب کے بارے میں یہ تاثر بن چکا ہے ان کی قربت کے لیے فیملی ممبر ہونا ضروری ہے۔

اس کے بعد ان کے کلاس فیلوز کی باری آتی ہے جن میں خواجہ آصف جیسے متکبر لوگ شامل ہیں، ان کے بعد آپ کا کشمیری ہونا ضروری ہے۔ آپ اگر گورے چٹے ہیں یا آپ بٹ، خواجہ اور لون ہیں تو پارٹی کے دروازے آپ پر کھلے ہیں اور ان کے بعد واہ جی واہ گروپ کی باری آ جاتی ہے۔ آپ واہ واہ کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں اور یہ حصار اتنے مضبوط اور بلند ہو چکے ہیں کہ میاں صاحب ان سے باہر دیکھ ہی نہیں پا رہے۔ انہیں یہ نظر ہی نہیں آ رہا دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ سوشل میڈیا اور عمران خان نے لوگوں کی سوچ بھی بدل دی ہے اور زبان بھی‘ آج کمشنر راولپنڈی بھی یہ کہہ کر استعفا دے دیتا ہے میں سوشل میڈیا کے زیر اثر تھا۔ سوال یہ ہے پارٹی نے ان حالات کے مقابلے کے لیے آج تک کیا کیا؟ کیا پارٹی نے نئے ٹیلنٹ کے لیے دروازے کھولے ہیں؟ کیا پارٹی میں عام طبقے یا لوئر مڈل کلاس کے لیے گنجائش ہے؟ آپ نے آج تک لوئر مڈل کلاس کے کتنے لوگوں کو ٹکٹ اور عہدے دیے؟ کیا آپ نے نئے پولیٹیکل ٹیلنٹ کے لیے سوشل میڈیا اور پولیٹیکل کالج بنایا؟ جب کہ آپ کے مخالف کی اصل طاقت ہی عام لوگ اور سوشل میڈیا ہے، عمران خان واحد لیڈر ہے جس کے گرد فیملی کے بجائے عام اور نئے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ آج بھی اس نے 79 فی صد ٹکٹ عام اور نئے لوگوں کو دیے لہٰذا لوگوں کو پی ٹی آئی میں اپنا فیوچر دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اس کے لیے لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسراخان نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا پر سرمایہ کاری کی چناں چہ یہ آج عام لوگوں سے لے کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی فیملیز تک میں گھس چکا ہے جب کہ آپ کی سوشل میڈیا پر انویسٹمنٹ زیرو ہے اور اگر ہے بھی تو پارٹی صرف ٹویٹر پر ہے اور اس کی رسائی صرف تین فی صد ہے۔ پارٹی ٹک ٹاک، انسٹا گرام، یوٹیوب اور فیس بک پر کہاں ہے اور اگر ہے بھی تو یہ بیانیہ نہیں بنا رہی، یہ صرف بیانیے کا جواب دے رہی ہے، ادھرپارٹی کے ٹکٹ بھی پکے ہیں۔ خواجہ آصف حلقے میں جائیں یا نہ جائیں، یہ لوگوں سے ملیں یا نہ ملیں یہ ڈویلپمنٹ کرائیں یا نہ کرائیں انہیں پارٹی کا ٹکٹ بھی مل جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ انہیں جتوا بھی دے گی اور انہیں وزارت بھی مل جائے گی۔

رانا تنویر، ایاز صادق ، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، خرم دستگیر، عابد شیر علی اور جاوید لطیف سمیت 35 شیروں کی ٹکٹیں اور وزارتیں بھی پکی ہیں چناں چہ پھر یہ لوگ عوام سے رابطہ کیوں کریں گے؟ یہ ان کے گندے ہاتھ اور پسینے میں بھیگے جسم کیوں برداشت کریں گے۔ دوسرا جب سب کو معلوم ہے ہم خواہ دس مرتبہ شہید ہو جائیں لیکن ہم پارٹی کے سربراہ بن سکتے ہیں اور نہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم تو پھر لوگ دل سے آپ کا ساتھ کیوں دیں گے؟ یہ عوام کی خدمت بھی کیوں کریں گے؟ جب مریم اورنگزیب کو یہ معلوم ہو گا مجھے صرف میاں صاحبان‘ؤ، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ساتھ نظر آنا چاہیے تو پھر یہ ٹیلی ویژن شوز میں کیوں جائیں گی۔ یہ میڈیا کے ساتھ تعلقات کیوں بہتر بنائیں گی چناں چہ یہ پارٹی کی پہلی سیکرٹری اطلاعات ہیں جو 8برسوں سے ٹیلی ویژن شوز میں نہیں گئیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتی ہیں مجھے کسی حلقے کی ضرورت ہے اور نہ صحافتی گڈوِل کی، میرے لیے صرف شریف فیملی کافی ہے۔ میں ایم این اے بھی بن جاؤں گی اور وزیر بھی جب کہ دوسری طرف عمران خان کے پاس صرف وہ ٹکتا ہے جو اس کا بیانیہ کیری کرتا ہے‘ جس دن شبلی فرازٹی وی سے غائب ہوتا ہے وہ اس دن گھر چلا جاتا ہے۔