پنجاب کے شہر قصور کی ایک بزرگ ہستی جنہیں بابا بلھے شاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ عنایت شاہ قادری کے پیروکار تھے، وارث شاہ بھی انہی کے پیرو کار تھے، ان میں ایک نے سارنگی پکڑ لی اور دوسرے پیروکار نے ہیر رانجھا لکھی، بابا بلھے شاہ کا اصل نام عبداللہ تھا، تاہم نام بگڑ کر بلھیا یا بلھے بن گیا، وہ تو ایک عظیم ہستی تھی، ان کا نام بگڑا اور عبداللہ سے بلھا بن گئے لیکن انہیں کیا علم تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب جمہوریت تو ہوگی تاہم نتائج ووٹ کے مطابق نہیں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے کچھ پالیا ہو اور اسی کے لیے یہ شعر لکھے ہوں
منہ آئی بات نہ رہندی اے
جوٹھ آکھاں تے کجھ بچ دا اے
سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچ دا اے
جی ہاں، سچ کہو تو پھر اس کے نتاج کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے کہ آج سچ کوئی نہیں سنتا، جنہوں نے فارم پینتالیس کے مطابق نتائج نہیں دیے انہیں تو سچ سننا ہی نہیں ہے، اور ہاں یہ بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے، آپ کہیں بھی سچ نہیں بول سکتے، اگر آپ کسی سیاسی جماعت میں تو اپنی لیڈر شپ کے سامنے کہاں سچ بول سکتے ہیں، بہر حال معاملہ سیاسی جماعت اور اس کے کارکن کا نہیں ہے، معاملہ تو ہے کہ قوم کی قیادت کرنے والے افراد کا چنائو ہوا، لوگ پولنگ اسٹیشن گئے، ووٹ بھی ڈالا، بلیٹ پر ڈھونڈھ کر اپنے پسند کے امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر بھی لگائی اور عجیب تماشا یہ ہوا قوم کو پتا ہی نہیں ان کا ووٹ کہاں گیا؟ اب جس کو بھی پتا ہے کہ ووٹ کہاںگیا، وہی کہہ رہے ہیں کہ سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچ دا اے، بہر حال قوم چاہتی ہے کہ سچ سامنے آجائے، اور ملک میں امن بھی رہے، کیا یہ ہوگا؟ اس سوال کا جواب کس کے پاس ہے؟ ابھی کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو کھل کر بتا سکے کہ فارم پینتالیس کے مطابق نتائج کیوں مرتب نہیں ہوسکے۔
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق تاریخ میں، دنیا میں سب سے زیادہ دھاندلی والے انتخابات لائبیریا میں ہوئے 1927 میں وہاں صدارتی انتخابات ہوئے۔ لائبیریا اور امریکا کی دوہری شہریت رکھنے والے ایک سیاست دان ’چارلس ڈی بی کنگ‘ نے انتخابات میںکامیابی حاصل کی اُس وقت لائبیریا میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 15 لاکھ تھی۔ تاہم سابق وزیر خارجہ ’چارلس ڈی بی کنگ‘ نے 2 لاکھ 34 ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدمقابل بے چارے امیدوار کے حصے میں صرف 9 ہزار ووٹ آئے۔ پاکستان میں بھی حالیہ عام انتخابات کے بارے میں دھاندلی، دھاندلی اور دھاندلی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں سویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن کہتے تھے کہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ووٹ گننے والے فیصلہ کرتے ہیں، جو لوگ انتخابی نتائج پر معترض ہیں، وہ تو یہی سمجھتے اور کہہ بھی رہے ہیں ’فارم پینتالیس‘ میں درج ہوتا ہے کہ 19 ہزار ووٹ لیے گئے، لیکن یہ تعداد ’فارم پینتالیس‘ میں 9 ہزار ہو جاتی ہے، پھر لوگ دانتوں تلے انگلی نہ دبائیں تو کیا کریں؟ پاکستانی قوم بھی حیران کھڑی ہے کہ اب کیا ہوگا؟ اگرچہ آٹھ فروری کے عام انتخابات بذات خود ایک انہونی ہیں لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑی انہونیاں ہو رہی ہیں۔ یہ چھوٹی انہونی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان آپس میں مل رہے ہیں آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ جب بھی کوئی بلے باز کرکٹ کے میدان میں ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب آخری اننگز کھیلتا ہے تو سب کھلاڑی اپنے اپنے بلے فضا میں بلند کرکے اس کے سائے میں اسے رخصت کرتے ہیں، ہمارے ہاں جب کسی سیاست دان کو مائنس کیا جاتا ہے تو سب اس کی خدمات بھی بھول جاتے ہیں ہمارے ملک میں ابھی سیاسی بلوغت نہیں آئی، مطالبہ ہمارا یہی ہے کہ پاکستان میں پارلیمان کی بالادستی ہونی چاہیے، اور عمل یہ ماضی میں ہمارے اکابرین نے خود دیکھا کہ ایوب خان کیسے فاطمہ جناح کو غدار قرار دے رہے تھے، اور اب 8فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کی کہانی ہے، نتائج آنا شروع ہوئے تو سب ہکا بکا رہ گئے ہیں، حافظ نعیم الرحمن نے تو جاری کیے گئے نتائج منہ پر دے مارے ہیں، کچھ لوگ ہیں جو بڑھک مارتے ہیں کہ انہیں اکاموڈیٹ کیا جارہا ہے، جنہیں یہ زعم ہے کہ انہیں فتح یاب قرار دیا جائے گا، ان کے لیے صرف یہ ایک نصیحت ہے۔
غصے وچ نہ آیا کر
ٹھنڈا کرکے کھایا کر
دن تیرے وی پھر جان گئے
اینویں نہ گھبرایا کر
اپنے اندروں جھوٹ مکا
سچ دا ڈھول وجایا کر
رکھی سکھی کھا کے توں
سجدے دے وچ ٹر جایا کر
جب یہ کچھ ہوگا تو پھر عام انتخابات بھی ہوں گے، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بند نہ ہوگی اور نتائج بھی فارم پینتالیس کے مطابق ہی آئیں گے۔