اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 23 ہزار سے زائد بیوروکریٹس دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ معاشی، معاشرتی اور سیاسی اثر رسوخ کے حامل دوہری شہریت والے افراد اس کے علاوہ ہیں۔ بیوروکریسی میں موجود افسروں کی دوہری شہریت اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے جسے آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔ یہ لوگ پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی ملکوں کی وفاداری کا بھی حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی وفاداری کے حلف کی پاسداری کرنے والے افراد سے پاکستان کے مفادات کی رکھوالی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ اسی طرح دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوہری شہریت کے حامل معاشرتی اثر رسوخ رکھنے والے سول شہریوں اور بیوروکریٹس کی موجودگی میں کیا پاکستان سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ادارہ جاتی سطح پر آزاد رہ سکتا ہے؟ حال ہی میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر دھاندلی کے الزامات عائد کرکے مستعفی ہونے والے کمشنر راولپنڈی اس کی ایک واضح مثال ہیں۔
ملک میں دھاندلی کے معاملات اپنی جگہ درست ہیں لیکن دنیا میں طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کے تناظر میں امریکی شہریت کے حامل کمشنر راولپنڈی جیسے اہم سرکاری فرد کی طرف سے لگائے گئے الزامات سادہ معاملہ نہیں۔ الیکشن سے پہلے سیاسی لحاظ سے ملک میں جو افراتفری موجود تھی الیکشن کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی بیش تر سیاسی جماعتیں نتائج میں تبدیلی پر واویلا کررہی ہیں اور اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہی ہیں۔ حالیہ سیاست میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعتوں کا موقف اپنی جگہ لیکن پرو اسٹیبلشمنٹ مولانا فضل الرحمن کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ عالمی کشمکش میں امریکا کا پاکستان پر شدید دباؤ چلا آرہا ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت بہت مضبوط ہے اس لیے عبوری حکومت کے بجائے براہ راست اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کمشنر راولپنڈی کا بیان، پرو عمران خان اور اینٹی عمران خان کشمکش کا شاخسانہ ہو۔ ایسی صورت میں بھی امریکی شہریت کے حامل بیوروکریٹ کا بیان معنی خیز ہے۔ حقیقت جو بھی ہو بہرحال پاکستان جیسے اہم اسٹرٹیجک ملک کی بیوروکریسی میں دوہری شہریت رکھنے والے ہزاروں افسروں کی موجودگی ملک کے لیے خطرات سے خالی نہیں۔