’’الفاظ کی خود کشی‘‘

651

خبر ہے کہ: ’’پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی نے اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کردیا‘‘ یاد رہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی زبانیں چند دن پہلے ایک دوسرے کے لیے زہر اُگل رہی تھیں۔ اس پہلے سے طے شدہ اتحادی حکومت اور اس سے متعلق متوقع خبر کے نشر ہونے کے چند لمحے بعد ہی لغت میں مدتوں سے موجود جگمگاتے، قابل فخر الفاظ ’’شرم، حیاء، اور غیرت‘‘ نے باہم مشورے کے بعد خود کشی کرلی۔ اس لیے کہ یہ الفاظ تضادات سے آلودہ پاکستان کے غلیظ بدبودار سیاسی چھپڑ میں مزید جینا اور استعمال ہونا نہیں چاہتے تھے۔ یہ خوبصورت اور غیرت مند الفاظ جاتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے کہ ہماری خود کشی کی خبر نشر نہ کی جائے۔ کیونکہ ان الفاظ کو خدشہ تھا کہ زرخرید، لالچی، بے ضمیر اینکر پر سنز خود داری کی خود کشی کو غلط رنگ دے کر اپنا ریٹ اور اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے۔ اور یہ جو لفظ ’’ووٹ‘‘ ہے پولنگ بوتھ میں اپنا حشر دیکھ کر اور فارم پینتالیس اور فارم سینتالیس کے درمیان دو تین دن سے چکر لگاتے لگاتے اس کا تو متھا ہی گھوم گیا ہے۔ اس نے تنگ آکر سیدھا کہہ دیا ہے کہ بے شعور پاکستانیو! میں تمہاری قومی زبان کا لفظ ہوں اور نہ ہی تمہاری کسی مقامی زبان کی کسی لغت میں میرا کہیں وجود ہے۔ میں تو تمہارے آقاؤں کی زبان کا ایک قابل قدر لفظ ہوں۔ یہاں آکر پریشان تو میں شروع سے ہی رہا مگر 2013، 2018 اور 8 فروری 2024 کے بعد تو یہاں میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ ووٹ کے نام پر تم جو کچھ کرتے ہو اس کے لیے یا تو اپنا لفظ بناؤ یا پھر مصر اور بنگلا دیش سے کوئی لفظ مستعار لے لو۔ جس طرح تم اور تمہارے لیڈر میری مٹی پلید کرتے ہو، تمہارے لیے مصری، بنگالی لفظ ہی مناسب رہے گا۔ یہاں نہ ووٹر کو میرے استعمال کا شعور اور نہ بیلیٹ پیپر بنانے والوں کو میری قدر! اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والوں کی منافقت کی تو دنیا میں کوئی مثالی ہی نہیں ملتی۔ ’’ووٹ‘‘ اور بھی بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر شاید ’’توہین الیکشن کمیشن‘‘ کے ڈر سے مزید کچھ کہنے سے رک گیا۔

فروری کی 8 تاریخ سے ’’صاف شفاف، غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور آزادانہ‘‘ جیسے الفاظ بھی بہت بد دل نظر آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن، آر اوز اور ووٹنگ عملے سے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے منتخب کرائے گئے ’’نمائندوں‘‘ سے بھی راہ فرار تلاش کرتے نظر آرہے ہیں۔ ’’قانون کی حکمرانی، قانون کی بالا دستی اور آئین کی دفعہ… کے تناظر میں یا آئین کا احترام‘‘ جیسے مرکبات بھی اپنی قدر کھو بیٹھنے پر سخت دلبرداشتہ ہیں۔

’’دھاندلی‘‘ جیسا بدنام لفظ بھی انتخابات کے نام پر ہونے والے حالیہ ڈرامے کے بعد منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ غیبی مدد سے منتخب جنات کی پہنچ سے پناہ مانگ رہا ہے۔ لفظ دھاندلی رو رو کر کہہ رہا ہے کہ شرم آرہی ہے کہ میں کیسے کیسے سیاہ ست دانوں کے ہاتھ آگیا ہوں کہ اس سے زیادہ نفرت اور ذلت مجھے پہلے کبھی نہیں ملی جتنی 8 فروری کے دن سے مل رہی ہے۔ شکوہ کر رہا ہے کہ اب تو لوگوں نے نام بگاڑ کر ’’دھاندلا‘‘ کہنا شروع کردیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دھاندلی دھاندلا بن کر منہ چھپانے پر مجبور نظر آ رہی ہے۔

ملک کی عدالتوں میں جھانکا تو وہاں ’’عدل اور انصاف‘‘ کے الفاظ بھی سر جھکائے شرمندہ شرمندہ اور بہت پریشان نظر آئے۔ میں نے پوچھا تم کیوں منہ چھپائے کھڑے ہو؟ قریب آکر آہستہ سے کان میں بولے… کہنے کو بہت کچھ ہے مگر مت پوچھو، ہمیں ’’توہین عدالت‘‘ سے ڈر لگتا ہے۔

’’ان شاء اللہ، اللہ کے فضل وکرم سے، میرے اللہ نے چاہا تو، ایاک نعبد وایاک نستعین، اور اللہ کی مہربانی سے‘‘ جیسے مقدس مرکبات میرے وطن کی ہر لغت سے جلد از جلد بھاگ نکلنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ سیاست کے کباڑ خانے کے ایک کونے میں بے سدھ پڑے ہوئے ’’اسلامی‘‘ اور ’’جمہوری‘‘ دونوں الفاظ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آئے۔ ذرا غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ان دونوں کی روح تو کئی دہائیاں پہلے ہی نکل چکی ہے۔

لغت کے سارے خود دار حیادار، مقدس، خوبصورت الفاظ ہماری بداعمالیوں اور تضادات کی وجہ سے اپنا اصل مفہوم اور اپنی قدر ومنزلت ایسے کھو چکے ہیں جیسے کھوٹے سکے کھوٹ کی وجہ سے اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہر خوبصورت لفظ اور ہر مقدس قول، قوم کے بے بس لوگوں کی طرح ربّ سے دعا کر رہا ہے کہ: ’’رَبَّنَآ اَخرِجنَا مِن ٰہذِِ القَرَیۃِ الظَّالِمِ اَھلْھَا…‘‘۔ (اے ہمارے ربّ ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں) (النساء 75)