بلوچ طلبا بازیابی کیس: نگران وزیراعظم پیش نہ ہوئے، عدالت نے دوبارہ طلب کرلیا

275

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا بازیابی کیس میں عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہونے پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، نگران وزیر دفاع اور نگران وزیر داخلہ کو دوبارہ طلب کر لیا۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ بلوچ طلبا بازیابی کیس کے سلسلے میں وزیراعظم اور وزراء جواب نہیں دے سکتے تو انہیں عہدے سے ہٹانا چاہیے،نگران وزیراعظم آئندہ سماعت پر کراچی نا جائیں عدالت آئیں، نگران وزیراعظم عدالت آنے کو اپنی توہین نا سمجھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔ بلوچ طلبا بازیابی کیس میں نگرا ن وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت کے طلب کرنے کے باجود دوسری بار بھی پیش نہیں ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم دوسری دفعہ نہیں آئے۔ نگران وزیراعظم سے پوچھ لیں۔

ان کو اس لئے بلایا تھا کیونکہ وہ جواب دہ ہیں۔ سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی آئی ایس آئی،ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی سرکاری ملازم ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ سب افسران جواب دہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں، تینوں اداروں کے سربراہوں کی کمیٹی بنا کر ان سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں۔ اپنے ملک کے شہریوں کی بازیابی کے لیے 2 سال لگے، ان کے خلاف لڑائی جھگڑے، نارکوٹکس سمیت کسی قسم کا کوئی کیس نہیں، مسنگ پرسنز کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں، 24 ماہ میں ابھی تک تمام بچوں کو ریکور نہیں کر سکے۔ نگران وزراء، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ کدھر ہیں؟ دوسری دفعہ وزیر اعظم نہیں آئے؟۔

دریں اثنا سیکریٹری داخلہ عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ 12 لاپتہ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق 8 طلبا بازیاب نہیں ہوئے۔

جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس میں کہا کہ 3 حکومتیں ابھی تک لاپتہ بلوچ سٹوڈنٹس کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔ مسنگ پرسنز کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں۔ یا پھر ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں یا آپ ان افراد کے خلاف کریمنل کیسز کی تفصیل بتائیں۔ یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے اغوا کیا۔ اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، ہر ماہ کی تاریخ ملا کر 24 تاریخیں ہو چکی ہیں، جو شہری بازیاب ہوئے ان کے خلاف کوئی کیس ریکارڈ پر نہیں ہے۔

فاضل جج نے کہا ان لاپتہ بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی، اسلام آباد ایف 6سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لے گئے، تین حکومتیں لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کیلئے کچھ نہیں کر سکیں، ابھی نگراں حکومت ہے، اس سے پہلے 16ماہ کی حکومت تھی، اس سے پچھلی حکومت بھی مسنگ پرسنز کے ایشو پر کچھ نہ کرسکی۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا ہم پی ایم کو کیوں بلائیں؟ جن پر الزام ہے انہی ادارے کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی انہیں پالیسی بنانے کا وقت دیں جس پر جسٹس محسن نے استفسار کیا کہ وہ کیا کہیں گے کہ جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟ کچھ اداروں کو جو استثنیٰ ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے۔

جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کو غلط استعمال کرتے رہے۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ میرے گھرپر ماسک پہنے لوگوں نے چھاپہ مارا ، میرے ملازم کو پکڑ کر لے گئے۔ 

جسٹس محسن اختر نے کہا کہ شیرافضل مروت کے گھر رات 3 بجے کیوں گئے۔ میں بتا دیتا ہوں کہیں گے کہ گئے ہی نہیں۔ یہ ایم این اے اور وکیل ہیں ان کے ساتھ اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے۔ اگر رکن اسمبلی کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو بلوچستان میں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا۔ آئی جی کا رویہ ٹھیک نہ ہوگا تو ہٹا دینا چاہیے۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ آئی جی اسلام آباد اور سی ٹی ڈی حکام کو بلالیں، دونوں تحریری جواب دیں، جو کچھ ہو رہا ہے سارے نظام کو پتہ ہے جج کو بھی پتہ ہے لیکن سب خاموش ہیں، ریاستی ادارے یہ کریں گے تو چوروں ڈاکووں سے شہریوں کو کون بچائے گا؟۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا وکیل سپریم کورٹ سے یہ رویہ شرمندگی کا باعث ہے، جس پر شیر افضل مروت نے کہا آئی جی اسلام آباد کو 10 دن جیل بھیج دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مزید اسٹوڈنٹس کو بھی جبری طور پر گمشدہ کیا گیا، حکومت بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ ریاستی پالیسی ہے۔ عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایم آئی پر مشتمل کمیٹی بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ یونیفارم کی عزت کو بحال کرانے کی ضرورت ہے۔ 

عدالت کا کہنا تھا آئی جی کو بتا دیں اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر ان کے خلاف ہو گی، ساری دنیا دیکھ رہی ہے یہاں تمام ممالک کے سفارت خانے ہیں، وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے دارالحکومت میں رہتے ہیں؟ 

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا وزیراعظم ہوتے تو دیکھتے کہ یہاں کس طرح کام ہو رہے ہیں، بغیر وارنٹ کے لوگوں کیگھروں میں داخل ہوتے ہیں، اسلام آباد سیکوئی بندہ اغوا ہوا تو آئی جی اور سیکرٹری داخلہ کے خلاف مقدمہ ہو گا۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا آئین کی بات کریں تو اب سب ہنستے ہیں، کوئی سیاسی حکومت ہو یا نئی حکومت آنے والی ہو، جواب کمیٹی نے دینا ہے، ہم آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں، وزارت دفاع نے اس متعلق کچھ کہنا ہے؟ آپ تحفظات سے آگاہ کر دیں۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا نگران وزیراعظم آئندہ سماعت پر کراچی نا جائیں عدالت آئیں، نگران وزیراعظم عدالت آنے کو اپنی توہین نا سمجھیں۔ 

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبا بازیابی سے متعلق کیس کی مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کر دی۔