فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، تھرڈ کلاس الیکشن

578

8 فروری 2024ء کو وطن عزیز میں منعقد ہونے والے عام انتخابات محض دھاندلی زدہ ہی نہیں تھے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ملک اور قوم کے ساتھ ایک سنگین ترین مذاق اور ان کی حد درجہ توہین کے مترادف تھے۔ اس الیکشن کو اگر بدنظمی اور بدانتظامی کا شاہکار بھی قرار دیا جائے تو یہ ہرگز بے جا نہ ہوگا۔ جنرل الیکشن میں انتخابی ڈیوٹی سرانجام دینے والا عملہ بھی بہت زیادہ تکالیف، ذہنی اذیت اور پریشانیوں سے دوچار ہوتا رہا۔ اگرچہ پریزائیڈنگ افسران کو الیکشن کمیشن اور حکومت نے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات بھی تفویض کر رکھے تھے، لیکن بقول ان افسران کے جس طرح ہماری الیکشن میٹریل وصول اور جمع کرواتے وقت قدم قدم پر ہتک اور تذلیل کی گئی تو اس وجہ سے ہم یہی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، تھرڈ کلاس الیکشن‘‘۔ انتخابی امور سرانجام دینے والے عملے کی المناک روداد سنی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہم انتخابی عمل میں ترقی یافتہ ممالک سے ابھی ایک صدی پیچھے ہیں۔ اس الیکشن میں انتخابی اخراجات کے نام پر اربوں روپے لٹانے کے باوصف تاحال ملک کے مختلف حصوں میں شکست یافتہ امیدواران روڈ راستوں کو بلاک کرکے نتائج کو دھاندلی زدہ گردان کر احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔ حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنرل الیکشن کے انعقاد کے بعد پورے ملک ہی سے بحران کا خاتمہ بالخیر ہوجاتا لیکن ہوا اس کے بالکل ہی برعکس ہے اور بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ حالیہ الیکشن وطن عزیز میں ایک نئے سنگین سیاسی اور معاشی بحران کی تمہید ثابت ہوگا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں میں سے تو بعض برملا اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ اس بحران کی شدت اور جدت میں اضافے کی وجہ سے آئندہ ڈیڑھ دو برس کے بعد ازسرنو عام انتخابات کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر تاہم تحریک انصاف کی حکومت کو قبل ازوقت رخصت کرنے والے اصل بااثر کرداروں کا بھی اس موقع پر تذکرہ اور محاسبہ کیا جانا ازبس ضروری ہے، جنہوں نے ایک چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کرواکر ملک اور قوم کو ایک ایسے بحران سے دوچار کردیا جس میں بظاہر تو خسارہ ہی خسارہ دکھائی پڑتا ہے۔

الیکشن میں دھاندلی کے خلاف بلوچستان اور سندھ کے مابین زمینی راستہ جس طرح کئی دن تک بند رہا، اس کی وجہ سے جہاں ہزاروں مسافروں کو سخت ترین تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، وہیں صوبہ سندھ اور پنجاب کی جانب سبزیاں اور پھل لانے والی گاڑیوں میں لدا سارا اسباب بھی گل سڑ گیا اور ان کی قیمتوں میں بھی لامحالہ اضافہ ہوا۔ 13 فروری بھی 4 رکنی جماعتی اتحاد کی اپیل پر بلوچستان میں شٹر بند ہڑتال رہی۔ سارے روڈ راستے بلاک رہے جس کی وجہ سے خوراک اور دیگر اشیائے صرف کی قلت کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ دہاڑی دار اور مزدور طبقہ اس صورتحال سے بے حد پریشان ہے۔ احتجاج زدہ علاقوں کا کاروباری طبقہ الگ سے کاروبار متاثر ہونے کی بنا پر سرپکڑے بیٹھا ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے حصوں سے بھی احتجاج کی اطلاعات آرہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے دفاتر کے سامنے بھی احتجاج ہورہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے پہلے دن پر اسمبلی کے گھیرائو کا اعلان بھی کوئی نیک شگون ہرگز نہیں ہے اور اس موقع پر غالب کا یہ کہا گیا مصرع بھی بے اختیار ذہن میں در آیا ہے کہ؎

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ایک مقام حیرت اور افسوس یہ بھی ہے کہ ہمارے آرمی چیف نے دھاندلی زدہ الیکشن کو بھی کامیاب قرار دے کر اس کے انعقاد پر ملک اور قوم کو مبارکباد پیش کی ہے۔ زمینی اور معروضی حقائق سے اتنا اغماض اور بے توجہی برتنا کوئی اچھی بات تو ہرگز بھی نہیں ہے۔ حالیہ الیکشن میں اصولی بنیادوں پر اپنی امارت سے استعفا دینے والے سراج الحق اور نشست سے دستبرداری کا اعلان کرنے والے انجینئر حافظ نعیم الرحمن اس وقت سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں اور ملک بھر میں انہیں مذکورہ سبب کی بنیاد پر خوب خوب سراہا بھی جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ہمارے ملک میں معمولی عہدوں اور برائے نام اختیارات کے حصول کی خاطر بھی اقتدار اور اختیارات کے حریصوں کے مابین جو تم پیزار ہو کر جوتیوں میں دال بٹنے کا بدنما منظرنامہ دیکھنے کو ملتا ہے ازخود ہی احساس ذمے داری کو محسوس کرکے عہدے اور اختیار سے دستبرداری کرلینا بلاشبہ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ یہ توفیق الٰہی بھی نصیب والوں ہی کو ملتی ہے۔ ایک طرف ملک کے مختلف علاقوں میں الیکشن کے نتائج کے خلاف پرتشدد احتجاج ہورہا ہے تو دوسری جانب اس موقع پر حکمت و تدبر سے خالی ہمارے حکمرانوں کے بیانات جلتی پر تیل جیسا کام کررہے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق نئے مالیاتی سال میں ہمیں مجموعی طور پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے 25 ارب ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے، جو بظاہر تو ناممکن ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہماری مقتدرہ اور سیاست دان ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر حصول اقتدار اور اختیارات کی اس جنگ میں اُلجھے ہوئے جس کا انجام کچھ اچھا دکھائی نہیں دیتا۔ ملک کو اس وقت معاشی ترقی دینے کے لیے جن پائدار، ہمہ گیر اور ہمہ جہت فوری اقدامات کی ضرورت ہے اس کی کسی کو کوئی پروا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ادراک۔ گستاخی معاف ایک مرتبہ پھر سے غالب یاد آتے ہیں۔ لگتا ہے یہ شعر انہوں نے گویا ہمارے لیے ہی تو ارشاد فرمایا تھا۔

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو؟

حالیہ الیکشن میں سندھ کے تمام اہم قوم پرستوں کو بھی اپنی اپنی نشستوں پر شکست کا صدمہ اور داغ سہنا پڑا ہے۔ خواہ ڈاکٹر قادر مگسی ہوں یا ایاز لطیف پلیجو اور یا پھر دیگر نامور قوم پرست سیاستدان، سبھی ہار گئے اور بری طرح سے ہارے ہیں۔ معروف سندھی اخبار روزنامہ ’’عبرت‘‘ کے اداریہ نویس کی تحریر کے مفہوم کے مطابق حالیہ الیکشن نتائج نے سندھی قوم پرستانہ سیاست کے بخیے اُدھیڑ ڈالے اور تختے نکال دیے ہیں۔ 12 فروری کی شام جی ڈی اے کے اجلاس کے بعد مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارو کی پریس کانفرنس نے سیاسی ماحول میں مزید گرما گرمی پیدا کردی ہے۔ موصوف نے جی ایچ کیو کے ساتھ اپنے والد کی وفاداری کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بنگلادیش کے قیام کا ذمے دار فوج کو قرار دیتے ہوئے گویا ایک طرح سے یہ پیغام بھی برملا دے ڈالا ہے کہ حالات ’’پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘ کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ انہوں نے بارگینگ کا راستہ کھولنے کے لیے یہ سندیسہ بھی دیا کہ ہم بھی تاحال آپ ہی کے ہیں لیکن یہ بہت غلط کیا گیا ہے کہ سندھ میں جان بوجھ کر ایک پلاننگ کے ساتھ پی پی پی کو جتوایا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے نومنتخب دو ارکان اسمبلی کے استعفے کا بھی اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف جی ڈی اے کے احتجاج میں ان کی جماعت کے مرید اور کارکنان کفن پوش ہو کر شرکت کیا کریں گے۔ سندھ میں حالیہ الیکشن کے نتائج کے بعد بدامنی کے واقعات بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ عوام میں احساس عدم تحفظ فزوں تر ہوچکا ہے۔ معروف کالم نگار زبیر سومرو نے بدھ 12 فروری کو سابق صدر آصف زرداری کی کامیاب سیاست پر اپنے لکھے گئے کالم میں انہیں ’’سندھ کا میکیاولی‘‘ قرار دیا ہے لیکن اے کاش! کہ ان کی اس کامیاب سیاست کا ثمر اہل سندھ کو بھی مل سکتا جو عرصہ 16 برس سے ان کے دور حکومت میں شدید مصائب سے دوچار ہیں۔