پولیٹیکل سائنس سے پولیٹیکل انجینئرنگ تک

577

جمہوریت، آزاد جمہوریت، کنٹرولڈ جمہوریت، یہ تینوں تصور یا جمہوری نظریات پولیٹیکل سائنس میں ملتے ہیں، لیکن پولیٹیکل انجینئرنگ نہیں ملتی، تاہم کنٹرولڈ جمہوریت جدید زمانے میں اس کی ایک شکل ہے۔ ملک میں بانی پاکستان کی وفات کے بعد وہ کچھ ہوا ہے کہ خدا کی پناہ، فاطمہ جناح بھی غدار قرار پائیں، اپنی زندگی میں وہ بھی کنٹرولڈ جمہوریت اور پولیٹیکل انجینئرنگ کا شکار ہوئیں، ایوب خان کے دور اقتدار میں بھی ایک نرسری لگائی گئی، اچھے ایک جانب اور برے سیاست دان دوسری جانب۔ برے سیاست دان گرفتار کیے جاتے تھے تو تھانیدار کہتا تھا کہ مقدمہ پوچھ کر درج کروں گا، کہ کس جرم میں مقدمہ درج کرنا ہے، جو اچھے سیاست دان تھے وہ سب ایوب خان کی جیب میں تھے، تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں، ایوب خان کے بعد یحییٰ خان آتے ہیں، ملک میں انتخابات کرائے جاتے ہیں، جس جماعت نے کم نشستیں جیتیں، حکومت اسے مل گئی، ملک؟ ملک ٹوٹ گیا، ایک جانب لاڑکانہ اور دوسری جانب بوگرہ، بوگرہ نے اپنے بندے الگ کرلیے، لاڑکانہ نے اعلان کیا جو ڈھاکا جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، ارکان اسمبلی نے اپنی ٹانگیں بچالیں لیکن ملک نہ بچا سکے۔

یہ پہلے عام انتخابات تھے، اس کے بعد 1977 آتا ہے، بھٹو صاحب نے ایک سروے کرایا، پتا چلا پورے ملک میں بھٹو ہی بھٹو ہورہی ہے، اس کے باوجود بھٹو صاحب نے پیسہ بہایا، پارٹی کارکنوں کو پولیس، ضلعی انتظامیہ سے مراعات لے کر دیں، بینکوں سے کہا گیا کہ پیپلزپارٹی کی تشہیر کے لیے اخبارات کو پیسہ دیا جائے، یہ سب کچھ ہوا، انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کرا لیے گئے اور بھٹو صاحب سمیت کابینہ کے تمام وزراء اور وزرائے اعلیٰ سب بلا مقابلہ منتخب ہوگئے، کسی دوسری سیاسی جماعت کے لیے کوئی لیول پلینگ نہیں تھی، آج کی پیپلزپارٹی پوری انتخابی مہم میں اسی کے لیے روتی رہی۔ 1977 کے انتخابات یک طرفہ تھے، لیکن عوام کے دلوں سے بھٹو صاحب اتر چکے تھے، پاکستان قومی اتحاد نے نتائج تسلیم نہیں کیے، عوامی تحریک چلی، طلبہ، وکلا، کسان، خواتین، مزدور، تاجر دکان دار سب باہر نکلے، پولیس کے سامنے انسانوں کے ننگے سینے تھے، مگر پولیس میں جرأت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر روک سکے، یہ تحریک تشدد کی جانب بڑھی، ملک میں پہلے تین شہروں میں مارشل لا نافذ ہوا اس کے بعد پورے ملک میں، اب جنرل ضیاء الحق آگئے، فرمایا، نوے روز میں انتخابات کرادیے جائیں گے، پھر کہا نہیں، پہلے احتساب پھر انتخاب، یوں ان کا اقتدار سات سال تک چلتا رہا، 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرادیے، مگر نظام نہیں چل سکا، پھر ایوب خان کی طرح اپنا ہی بنایا ہوا نظام لپیٹا اور ایک بار پھر ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا، کچھ ہی ماہ کے بعد130 C-پر سوار ہوئے اور واپس زمین پر نہیں اتر سکے۔

1988 آجاتا ہے، ملک میں پھر انتخابی میدان سجتا ہے ایک جانب پیپلزپارٹی، دوسری جانب اینٹی پیپلزپارٹی، مگر پیپلزپارٹی کو سادہ اکثریت مل جاتی ہے، حکومت بناتی ہے لیکن حکومت بنانے کے لیے پہلے بے نظیر بھٹو کو پکوڑے تلنے پڑے، جنرل بیگ بہت خوش ہوئے، اقتدار پیپلزپارٹی کو مل گیا، تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے انیس ماہ حکومت چلی، 1990 میں حکومت برطرف کردی گئی اور ملک میں انتخابات ہوئے، اس بار آئی جے آئی بھی ماضی کی نسبت قدرے منظم تھی، انتخابی نتائج آئے تو نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے، انہوں نے سب سے پہلے صدر اسحاق خان کو ٹکر ماری، پھر کہا ڈکٹیشن نہیں لوں گا، جنہوں نے اقتدار دیا تھا انہوں نے کہا اچھا یہ بات ہے تو بندوبست کرلیتے ہیں، انہوں نے انگڑائی لی اورسارے کا سارا اقتدار نالہ لئی میں ڈبو دیا، اس کے بعد 1993 میں انتخابات ہوتے ہیں، تو پیپلزپارٹی نے ڈیل کی، آصف علی زرداری جیل سے نکلے سیدھے نگران کابینہ میں وزیر بنے، پیپلزپارٹی کے اس دور میں، ایک تجربہ ہوا، مسلم لیگ(ج) اتحادی جماعت تھی اس نے کہا کہ پنجاب میں ہمارا وزیر اعلیٰ ہوگا تو حمایت کریں گے، پیپلزپارٹی اس قدر زچ ہوئی کہ منظور وٹو کو وزیر اعلیٰ قبول کرنا پڑا، فیصل صالح حیات کو مشیر اعلیٰ بنایا گیا، دونوں میں ان بن ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں وٹو بھی گئے اور عارف نکئی آگئے، لیکن چند ماہ کے بعد پیپلزپارٹی کا اقتدار بھی ختم ہوگیا، بے نظیر بھٹو جلاوطن ہوئیں، اور آصف علی زرداری جیل چلے گئے۔ 1997 میں نواز شریف پھر وزیر اعظم بن گئے، دو سال بعد اقتدار ایسا ڈوبا کہ پورا خاندان ایک معاہدہ کرکے جدہ روانہ ہوگیا، جنرل مشرف نے ملک کا نظام سنبھال لیا، انہوں نے ایوب خان اور جنرل ضیاء کی طرح جوڑ توڑ کیا، ملک میں انتخابات کرائے تو کنٹرولڈ جمہوریت لائے، لیکن یہ نظام بھی نہ چل سکا اور جنرل مشرف کو بے نظیر بھٹو صاحبہ سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہونا پڑا، خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، بے نظیر بھٹو قتل ہوگئیں، انتخابات ہوئے پیپلزپارٹی یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لائی، یوسف رضا گیلانی سے ابتداء ہوئی کہ وزیر اعظم بذریعہ عدالت برطرفی کی کھائی میں پھینکا گیا، اس کے بعد یہی کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا، اور عمران خان بھی اسی راہ سے گزارے گئے، قاری اب خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ملک میں کس قسم کی جمہوریت ہے۔