چینی اور نکتہ چینی

612

چینی عوام کی پسندیدہ خوراک ہے اور نکتہ چینی خواص کا پسندیدہ موضوع ہے البتہ ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ نکتہ چینی کو نقطہ چینی لکھا اور کہا جائے تو اہل ِ علم اور دانشوروں میں اختلافات ِ رائے کا دروازہ کْھل جاتا ہے جسے بند کرنے کے لیے ہر تدبیر بے تدبیر ثابت ہوتی ہے اور نقطہ نظر کو نکتہ نظر کہنے اور لکھنے والوں کی علمیت پر بہت سے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر حالیہ الیکشن میں نقطے نکتہ چینی کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ شیر اور تیر میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے شیر کا ایک نقطہ ہٹا دیا جائے تو تیر بن جاتا ہے اور تیر کا ایک نقطہ ہٹا دیا جائے تو نیر (آنسو) بن جاتا ہے اور ایک نقطہ بڑھا دیا جائے تو شیر بن جاتا ہے۔

بعض ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ نکتی اور نکتی پلاؤ کے شوقین ہوتے ہیں نقطہ چینی کو نکتہ چینی کہتے ہیں اگر نقطہ اور نکتہ پر غور کیا جائے تو نقطہ نظر اور نکتہ نظر کی تفہیم میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ کیونکہ نکتہ کا مطلب گہری بات کوئی ایسی بات جو غور و غوض کی طلب گار ہو مگر نقطہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی وہ صرف کسی لفظ کی معونیت پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اْس کی ہیت ہی بدل دیتی ہے جیسے پ کے نقطے پ کے اوپر ڈال دیے جائیں تو ث بن جاتا ہے اسی طرح نقطہ اور نکتہ میں فرق ہے۔

عاشقوں میں فرد ہیں نکتے وہ ہم کو یاد ہیں
قیس کے استاد، فرہاد کے استاد ہیں
دل کے پھپھولے توڑوں میں
نکتہ کوئی باقی نہ چھوڑوں میں

عزتِ مآب چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے الیکشن کے انعقاد پر جو لکیر کھینچی تھی وہ پتھر کی لکیر ہی ثابت ہوئی اور مقررہ وقت پر الیکشن بخیروعافیت ہوگئے۔ نتائج کے مطابق مسلم لیگ نے تیر کا نقطہ اْڑا کر نیر بنا دیا ہے مگر الیکشن کے نتائج نے مسلم لیگ کو نیر بہانے پر مجبور کر دیا ہے۔ حالیہ نتائج نے نہ صرف بڑے بڑے بْرج اْلٹ دیے ہیں بلکہ نظریات بھی اْلٹ دیے ہیں سیاسی مبصرین کہا کرتے تھے کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔ مگر حالیہ نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ آزاد اْمیدوار سب پر بھاری، کامیاب ہونے والے آزاد اْمیدوار سب سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر ابھی تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ آزاد اْمیدواروں میں کتنے اْمیدوار تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ ہیں تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ آزاد اْمیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے بعد تحریکِ انصاف پختون خوا کی ایم کیو ایم بن جائے گی۔ اگرچہ مسلم لیگ سب سے بڑی پارٹی ثابت ہوئی ہے اور اْصولی طور پر اْسے حکومت بنانے کا حق ہے۔ مگر گدلے نظام نے اْس کی شفافیت کو دْھندلا دیا ہے۔ خدا جانے سیاسی اْفق پر چھائی دھندلاہٹ کیا گْل کھلاتی ہے۔ کیونکہ آزاد اْمیدواروں کی مرضی اور منشا کی اجازت کے بغیر حکومت تشکیل نہیں پا سکتی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آزاد اْمیدوار جو سب پر بھاری ثابت ہوئے ہیں اپنا وزن کس کے پلے میں ڈالتے ہیں اور اِن کے پاؤں کے نیچے کون آتا ہے؟ اس اعتبار سے 2024 کے نتائج سے ثمر بار ہونے کے لیے آزاد اْمیدواروں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی حکومت دیر پا ثابت نہیں ہوگی کیونکہ سیاسی عدم استحکام کے باعث دوبارہ الیکشن نا گزیر ہوجائیں گے۔ گویا حالیہ الیکشن معیشت کو مزید غیر مستحکم کر دیں گے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوبارہ ہونے والے انتخابات سیاسی اور معاشی استحکام کا سبب بن سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب خوش آئند نہیں ہوسکتا تو کیا یہ بہتر نہیں کہ الیکشن کرانے کے بجائے 5 سال کے لیے قومی حکومت بنا دی جائے۔