درویشوں کے فیصلے

575

عجب ہیں یہ دو بندے، نہ لالچ، نہ حرص، نہ خوف، درویشانہ مزاج، دلیرانہ فیصلے… زمانے سے بالکل ہی مختلف!

ڈاکے اور چوری کا مال بٹ رہا ہے یہ نہیں لے رہا۔ وہ کہتا ہے میں کسی کا حق نہیں لوں گا۔ میں صرف اپنے حق کے لیے بھی لڑوں کا اور ہر اس گروپ یا شخص کے لیے بھی جس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ یہ بندہ شہر کے ہر مظلوم کی آواز بن گیا ہے۔ اس کی پلیٹ میں ڈاکے کا مرغ مسلم ڈال دیا گیا تو اس نے ڈاکو کا شکر گزار ہونے کے بجائے مرغا اصل مالک کے حوالے کر دیا۔ کہتا ہے کہ میرا حق مارا گیا ہے لیکن میں کسی کا حق نہیں مار سکتا۔ یہ بندہ اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جس کے حق پر ہمیشہ محافظوں نے ڈاکہ ڈالا اور ان کو ملنے والا قلیل حصہ بھی ان سے چھین کر اپنے ’’حرام خوروں‘‘ کے حوالے کرتے رہے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی سیٹ اصل حقدار کو واپس کرنا حافظ نعیم الرحمن ہی کا امتیاز ہے۔ یہ کام عوام کا مسترد شدہ کوئی ڈاکو تو نہیں کر سکتا۔ یہ وہ حافظ ہے جس کے ہاتھ میں ’’چھڑی‘‘ نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ بینا و دانا حافظ ہے، نابینا حافظ نہیں! اس کے سینے میں جو قرآن محفوظ ہے اس کی آیات کا مطلب، مفہوم اور منشا اس کے دل، دماغ اور عمل میں بھی موجود اور محفوظ ہے۔ یہ حافظ جانتا ہے کہ اس کے سینے میں محفوظ قرآن اسے کسی کے حق پر، کسی کے مال پر، کسی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مالک ارض و سماء کی طرف سے نازل کردہ، سینوں میں محفوظ قرآن تو ایک ہی ہے۔ اس کی تقدیس، آیات و الفاظ میں بھی فرق نہیں مگرکتنا فرق ہے کہ بغیر چھڑی والے حافظ کا ایمان، یقین پختہ اور عمل مثالی ہے۔

’’اِنِّی دَعَوتْ قَومِی لَئلًا وَنَھَارًا…‘‘۔ ’’اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا‘‘۔ (نوح: 5)

دوسرا منفرد بندہ وہ ہے جس نے اپنے ملک کے لوگوں کو دھوکے بازوں، جعلسازوں، لٹیروں، ڈاکوں سے بچانے کے لیے دن رات محنت کی، شہروں شہروں، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ لوگوں کو جگانے کے لیے صدائیں لگاتا پھرا۔ چوروں لٹیروں اور چوکیدروں کے گٹھ جوڑ سے باخبر کرتا رہا۔ لوگوں کو اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے جگانے کی خاطر اپنا سکون آرام قربان کیا۔ صلے اور ذاتی مفادات سے بہت دور سوچنے والے اس درویش نے ایک اور مثال قائم کردی۔ لیکن جب وہ لوگوں کو محافظوں کی دھوکہ دہی اور ڈاکوں سے بچانے میں کامیاب نہ ہوسکا تو اپنی محنت کا ڈھنڈھورا پیٹنے اور صلہ مانگنے کے بجائے اپنی ’’ناکامی‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے ذمہ داری چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

صد فی صد یقین ہے اور کارکن جانتے ہیں کہ سراج الحق نے مقصد کے حصول کے لیے کوششوں میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ فروری کے انتخابات کا یہ بھی بہت بڑا سچ ہے اور دشمن بھی مانتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہاری نہیں ہرائی گئی ہے۔ جماعت کی شکست میں سراج الحق یا مرکزی وعلاقائی قیادت یا کارکنان کی کوئی کوتاہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود سراج الحق نے شکست کی ذمے داری قبول کرکے ایک اعلیٰ اخلاقی روایت کو زندہ کیا ہے۔ اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے شاندار جدوجہد کے باوجود صلے اور ذاتی مفادات سے بہت دور سوچنے والے اس درویش نے اپنے عہدے سے استعفا دے کر ایک اور عظیم مثال قائم کردی۔ سراج الحق نے استعفا دے کر اپنی، اپنی جماعت کی اور جماعت کی امارت کے عہدے کی توقیر میں بہت اضافہ کردیا۔ یقین ہے کہ جماعت اسلامی کے حامی، ہمدرد اور کارکن اس عظیم، مخلص، دلیر اور بے لوث رہنما کی قدر میں کمی نہیں کریں گے۔ سید مودودی کے شاگردوں حافظ نعیم الرحمن اور سراج الحق نے سیٹ اور عہدہ چھوڑ کر لاکھوں دل جیت لیے ہیں۔

’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘