قوم اور کراچی، بھاڑ میں جائیں

1844

پاکستان کی تاریخ کا ایک اور بدترین انتخاب منعقد ہوا جس نے پوری دنیا میں پاکستان کو مذاق بنادیا ہے اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی اور کردار سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ آرمی چیف نے کامیاب انتخاب پر قوم کو مبارک باد دی ہے جب کہ یہ ہر طرح سے ناکام انتخاب تھا، خاص طور پر کراچی کے ساتھ وہی سلوک ہوا ہے جو اسٹیبلشمنٹ نے مشرقی پاکستان میں مینڈیٹ تسلیم نہ کرکے کیا تھا۔ یہ ایسے ہی انتخابات ہیں جیسے بنگلادیش میں چند روز قبل ہوئے تھے جہاں عوام کو روند ڈالا گیا اور جبر کی حکومت قائم ہوئی۔ حقیقت میں پاکستان میں انتخابات کے نام پر جمہوریت کا خون ہوا ہے۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا، حالیہ انتخابات کے بعد ملک میں استحکام ہوتا فی الحال مشکل نظر آرہا ہے، عوام اور سیاسی جماعتیں اب بھی تقسیم کا شکار ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان میں انتخابات کے نتائج دیر سے سامنے آئے ہوں، مگر حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ضرور ہوا کہ الیکشن کے دن اور اگلی رات ملک بھر میں موبائل فون نیٹ ورکس بند رہے اور 24 گھنٹے گزرنے پر بھی مکمل نتائج سامنے نہیں آسکے۔ گزشتہ 2 روز کے واقعات نے بظاہر پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ کو مزید گہرا کردیا ہے، سب سے بڑا ظلم کراچی کے عوام کے ساتھ ہوا ہے، ایک ایسی پارٹی ایم کیو ایم جس کی شہر میں ساکھ اور سیاست ختم ہوگئی، کام کرنے والے کارکن انتخابات میں موجود نہیں تھے، اسٹیبلشمنٹ نے اْسے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی 15 سیٹیں اٹھا کر دے دیں، پورا شہر حیران و پریشان ہے، ووٹر ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے؟ ہم نے یا ہمارے پورے خاندان میں سے کسی نے ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دیا، یہاں تک کہ بعض پیسے دے کر بٹھائے گئے پولنگ ایجنٹوں نے بھی ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دیا، ووٹ اگر کسی کو ملا ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ’’آزادوں‘‘ کو ملا ہے۔ لوگ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کو جس طرح ٹارگٹ کیا تھا اور انتخابی مہم چلائی تھی وہ اچانک خاموش ہوگئی اور جن علاقوں میں بلدیاتی انتخابات میں اْس نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرکے زبردستی ووٹ ڈالے تھے وہاں بھی بحیثیت ِ مجموعی کوئی ایسا جوش نظر نہیں آیا۔ وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو خاموش رہنے کا کہا گیا اور پانچ کی جگہ کراچی کی سات نشستیں دے دی گئیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ’’اچھا بچہ‘‘ راتوں رات تو نہیں بن گئی۔یہ سارا انتخابی کھیل ایک منصوبے کے تحت رچایا گیا، اور آگے بھی اسی کے مطابق عمل ہورہا ہے، اس کے باوجود کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے عام انتخابات 2024ء کے بعد حکومت سازی کے لیے پارٹی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نون لیگ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک شخص کے ہاتھوں دو بار بے وقوف بننا شرمناک ہوگا، عوام کی اکثریت نوازشریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتی۔ لیکن اب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے کے لیے اچانک پیش رفت ہورہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہل رہی ہے، اس صورتِ حال کا صاف مطلب ہے کہ قوم جائے بھاڑ میں، جو اسکرپٹ لکھ دیا گیا ہے اْس کے مطابق کہانی آگے بڑھے گی۔ آرمی چیف نے بھی کہا ہے کہ قوم کو انتشار کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے شفا بخش رابطے کی ضروت ہے۔ کراچی کے عوام اس وقت صدمے میں ہیں، سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کو کراچی کے عوام کب تک برداشت کریں گے؟ بندوق کے زور پر آپ کب تک لوگوں کو یرغمال بنائیں گے؟ موجودہ انتخابات پر بی بی سی نے بھی کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر کئی صارفین الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے تو دوسری جانب فوج اور عدلیہ کو بھی اس افراتفری کا ذمے دار ٹھیرایا جارہا ہے۔ ان ابتدائی نتائج نے سب کو حیران کردیا کیونکہ توقعات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو برتری حاصل تھی تاہم چند ہی گھنٹوں میں رزلٹ کی آمد کا سلسلہ رک گیا، عوام کی نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر تھیں مگر وہ بھی بے بس نظر آرہا تھا۔ اس تمام صورت حال میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بنی ہے۔ گزشتہ دو دن کے دوران پیش آنے والے ان تمام واقعات کے بعد پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ مزید گہری ہوتی نظر آرہی ہے، یہاں تک کہ اتنی اندھیر نگری تھی کہ امریکا کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں اظہارِ رائے کی آزادی اور پْرامن اجتماعات پر غیر ضروری پابندیاں لگائی گئیں، انتخابات میں تشدد، انسانی حقوق اور بنیادی آزادی پر پابندی، میڈیا ورکرز پر حملے، انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز تک رسائی پر پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ امریکی ترجمان نے کہا کہ امریکا انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات پر فکرمند ہے، انتخابات میں مداخلت یا دھوکا دہی کے دعووں کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔ اس وقت میڈیا بھی کنٹرول میں ہے اور جبر اتنا ہے کہ کوئی کراچی میں ہونے والی بدترین دھاندلی، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضوں اور ایم کیو ایم کو دی جانے والی سیٹوں پر کھل کر بات بھی نہیں کررہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ صدرِ مملکت کو بھی کہنا پڑا کہ مزید کھدائی بند کرو۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے پس منظر میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پْرامن اور منصفانہ انتخابات کرانے میں ناکام اور پوری دنیا کے سامنے تماشا بنا ہوا۔ ہم جیت گئے ہیں، ہماری جیتی ہوئی سیٹیں ہمیں ملنی چاہئیں۔ اہل ِ کراچی نے سب سے زیادہ ووٹ جماعت اسلامی اور آزاد امیدواروں کو دیے لیکن بدترین دھاندلی اور نتائج تبدیل کرکے ایک بار پھر سے ایم کیو ایم کو شہر پر مسلط کیا جارہا ہے، ایم کیو ایم کو پورے شہر میں صرف5فی صد ووٹ ملے اس کے باوجود اسے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستیں دے دی گئیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جماعت اسلامی کے پاس فارم 45 اور 46 موجود ہیں جن کے مطابق ہم جیتے ہیں، شہری پوچھ رہے ہیں کہ ہم ووٹ بھی دیتے ہیں اس کے باوجود ہروا دیا جاتا ہے۔ حافظ نعیم نے بھی اس نکتے کو اٹھایا ہے کہ الیکشن کمیشن اسی طرح سے بار بار مینڈیٹ پر قبضہ کرکے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔ اگر من پسند نتائج ہی حاصل کرنے تھے اور جیتنے والوں کو ہروانا تھا تو انتخابات پر 48ارب روپے کیوں خرچ کیے گئے؟ جماعت اسلامی جائز و قانونی حقوق کے لیے آواز اٹھائے گی۔ آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کراچی جو ملک کی معاشی شہہ رگ ہے، اس شہر کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ ملک کی کْل جی ڈی پی میں بڑا حصہ ڈالتا ہے اسے اس کی حقیقی قیادت سے محروم کرکے ایک دہشت گرد، عوام کی مسترد جماعت ایم کیو ایم کو مسلط کردیا گیا ہے۔ یقینا اس عمل اور اس سے پیدا ہونے والے بحران کے گہرے منفی اثرات عام شہریوں کے ساتھ ریاستی اداروں پر بھی پڑیں گے اور ملک میں انارکی بھی پھیلے گی۔