سراج الحق، لیول پلینگ فیلڈ اور نظام شریعت

608

الیکشن 8 فروری 2024 کے انعقاد میں بظاہر اب دنوں کا نہیں بلکہ گھنٹوں کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ الیکشن کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے البتہ کہیں کہیں سے سیاسی مخالفین کی آپس میں جھڑپیں اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی جان لینے اور زخمی کرنے کی اطلاعات بھی آتی رہیں۔ عدم برداشت اور یہ رویے ہمارا قومی المیہ ہیں۔ نمایاں سیاسی پارٹیاں اپنا سیاسی بیانیہ اخبارات کے مکمل صفحہ اوّل پر مشتہر کرتی رہی ہیں اور ٹیلی وژن کی اسکرین پر محض اپنی دولت کی وجہ سے جلوہ گر اور اپنے وسائل سے ٹی وی چینلوں پر قابض ہیں۔ گزشتہ روز شہباز شریف کی پریس کانفرنس اس انداز میں پیش کی گئی کہ جیسے پاکستان کے تمام قومی چینل بشمول علاقائی چینل مسلم لیگ(ن) کی پارٹی ملکیت ہیں۔ اسی حوالے سے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی کو لیول پلینگ فیلڈ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ: ’’میڈیا کے اس دور میں جماعت اسلامی کو لیول پلینگ فیلڈ بالکل نہیں مل رہی‘‘ جناب سراج الحق نے سیاسی صورتحال کا تفصیلی اور تقابلی جائزہ لیتے ہوئے زمینی حقائق سے آگاہ کیا کہ جماعت اسلامی جو چترال سے کراچی تک اور سندھ کے گوٹھوں سے گوادر تک یکساں جانی پہچانی اور مقبول ہے وہ اپنا وژن اور سیاسی بیانیہ اس طرح نہیں پہنچا پا رہی ہے جس طرح بقیہ تینوں پارٹیاں ٹیلی ویژن اسکرین پر نظر آرہی ہیں اور اپنا سیاسی بیانیہ عوام تک پہنچا رہی ہیں۔ اس کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ الیکشن کمیشن اگر اپنے قواعد و ضوابط پرعمل درامد کرائے تو صورتحال بالکل تبدیل ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان پارٹیوں کے امیدوار اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں تو برسر اقتدار آنے کے بعد یہ کروڑوں کے اربوں وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ان پارٹیوں کے امیدواروں کے پاس لینڈ کروزر قطار میں کھڑی ہوتی ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار گاڑیوں میں یا موٹر سائیکلوں پر ہوتے ہیں۔ یہ سب عوامل الیکشن مہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور میڈیا کے اس دور میں یہ چیزیں اپنا اثر تو رکھتی ہیں۔ اس سب کے باوجود جماعت اسلامی عوام کے سامنے اپنا پیغام رکھ رہی ہے۔ گلی کوچوں میں اس کا ووٹر فعال ہے۔ اخبارات کے پورے صفحے کے اشتہارات ہوں یا ٹیلی وژن چینل کا وقت لینا ان تمام پارٹیوں کی طرح اس سب کی جماعت اسلامی متحمل نہیں ہوسکتی البتہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام کو بھرپور انداز میں لوگوں تک پہنچا رہی ہے۔ جو بس میں ہے وہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی میں 240 اور صوبائی اسمبلیوں میں 531 نشستوں پر اپنے نمائندوں کو کھڑا کیا ہے۔ الیکشن میں اگر جماعت اسلامی کے نمائندوں کو عوام نے ایک ایسی تعداد میں منتخب کیا کہ وہ حکومت سازی پر اثر انداز ہو سکے یا حکومتی پالیسیوں کی خود تشکیل کر سکے تو وہ اپنے منشور کے مطابق ملکی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

آج نواز شریف صاحب اپنی تقریروں میں ’’ہمارے دور میں‘‘، ’’ہمارے دور میں‘‘ کہتے ہوئے تھکتے نہیں۔ اگر نواز شریف کے کسی بھی دور حکومت کے رائے عامہ کے جائزہ کا ریکارڈ نکال کر تقابل کریں تو پریشانی، مہنگائی اور بدحالی پر مشتمل رائے عامہ آج سے مختلف نہیں تھی۔ آج حالات اگر زیادہ بدتر ہیں تو اس بدتری کی وجہ بھی پی ڈی ایم کی حکومت ہے جس کی سربراہی شہباز شریف اور شرکت اقتدار بلاول زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ تھی۔ آج کوئی دینی طبقہ بھی مولانا فضل الرحمن سے اٹھ کر نہیں پوچھتا کہ حضرت پی ڈی ایم کے دور میں پاکستان کی شرح سود کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟ آپ نے اسلامی نظام کے لیے سودی نظام اور مہنگائی کے خاتمے کے حوالے سے کیا کاوشیں کی ہیں؟ اس کے مقابلے میں جناب سراج الحق کا کہنا ہے کہ ایک وسیع البنیاد سوچ بچار اور ہوم ورک کے نتیجے میں سود سے پاک ایک ایسی معاشی پالیسی تشکیل دی گئی ہے کہ جس سے پاکستانی عوام کی زندگیوں میں خوشیاں لائی جا سکیں گی اور ان کی زندگی کو آسان بنایا جا سکے اور مہنگائی سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے گا۔ سراج الحق بڑی درد مندی سے بتا رہے تھے کہ آج ہر بچہ پونے تین لاکھ کا مقروض ہے۔ 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پانچ دریاؤں کے ہوتے ہوئے ہر پانچواں پاکستانی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ 9 لاکھ بچے اور بچیاں نشے کے عادی ہیں۔ ذہین پاکستانی بچے ہر وقت ملک چھوڑنے پر راضی ہیں۔ آخر یہ کس وجہ سے ہے؟ یہ اب تک کی پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کی مشترکہ کارکردگی ہے۔ ان سب پارٹیوں نے سودی نظام مسلط کررکھا ہے جس کے متعلق قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی زکواۃ اور عشر اور صدقات کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت تقریباً سوا سات کروڑ پاکستانیوں پر زکواۃ واجب ہے جو کہ تقریباً 40 کھرب بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں شرح سود ہندوستان کی شرح سود 6.7 فی صد اور مغربی ممالک سے بھی زیادہ یعنی 24 فی صد ہے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر جماعت اسلامی کو ایک دن کی حکومت بھی ملی تو ان کا پہلا کام سود کا خاتمہ ہوگا۔ پاکستان کا کل بجٹ 14 ہزار ارب ہے اور سودی قرضوں کی واپسی میں 7303 ارب واپس چلے جاتے ہیں اس طرح تو یہ نظام کبھی نہ درست ہو سکتا ہے نہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ اگر ترکی میں سودی نظام ختم نہیں کیا جا سکا تو ترکی ان کے لیے ماڈل نہیں ہے بلکہ اللہ کا حکم قرآن کی صورت میں ماڈل ہے کہ سود کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو اگر احترام اور اعتماد دیا جائے تو یہ 50 ارب ڈالر تک اپنے ملک کو بھیج سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھا کہ جن ممالک نے اپنی آبادی میں کمی کی ہے وہ تو پچھتا رہے ہیں ہماری آبادی ہماری طاقت ہے۔ ملک میں پانچ ہزار ارب ڈالر کی کرپشن ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 17.7 ارب ڈالر اشرافیہ کھا جاتی ہے۔ روزانہ 13 ارب کی کرپشن ہے اس پر قابو پایا جائے۔ آبادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بدانتظامی کرپشن خراب تر حکمرانی کا اور ذاتی مفادات کا مسئلہ ہے۔ نوجوان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ انہیں ملازمت فراہم کی جائے۔آئی ٹی فیلڈ میں محنت کی جائے تو تین سال میں ہم 2.5 ارب ڈالر سے اس کی آمدنی 20 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔

76 سال سے اہل وطن اب تک کی اقتدار میں آنے والی حکمران پارٹیوں اور لیڈروں کے وعدوں پر باربار اعتبار کر کے دھوکہ کھاتے رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ میں ہے یا ’’نفاذ شریعت‘‘ (جو معاشرے میں نہ صرف برکت اور خوشحالی کی نوید ہے بلکہ امن و سلامتی کی ضامن اور اقوام عالم کی صفوں میں نمایاں مقام اور مرتبے کی حامل بھی۔ جناب سراج الحق کے صحت معاشی تعلیمی اور دیگر منصوبے مسائل کے حل کے لیے دراصل قرآن کریم کے ان ہی احکامات شریعت کی طرف عملی قدم ہے) میں ہے؟ 8 فروری کو فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔