اب دھڑے بازی نہیں، عقل کا استعمال

528

اب تو یہ باتیں عوام کے درمیان ایک لطیفہ بن کر رہ گئی ہیں کہ پانچ سال عوام کو اپنی شکل تک نہ دکھانے والے سیاستدان انتخابات کے دنوں میں اتنے سوشل ہو جاتے ہیں کہ بیچارے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں، انسان تو دور کی بات کب کسی کی بکری یا گائے بھینس مرے اور یہ تعزیت کے لیے جائیں۔ ان دنوں میں یہ اپنی ماں کو چاہے مہینہ فون نہ کریں مگر دور کی جان پہچان یا جان پہچان کے بغیر بھی کسی کی طبیعت خراب ہونے پر فوراً عیادت کے لیے پہنچ جائیں گے۔ ان دنوں میں گاؤں کے موچی، چھیمبے، کمہار، سب ان کے ماں جائے بھائی ہوتے ہیں۔ آگے بڑھ بڑھ کر لوگوں کو گلے ملتے ہیں اور مصافے کرتے ہیں، چاہے بعد میں ہاتھوں کو سینی ٹائز ہی کرتے ہوں۔ یہ جلسے جلوسوں میں قسمیں کھا کھا کر لوگوں سے ان کے تمام مسائل حل کروانے کے وعدے کرتے ہیں۔ علاقے کو ہر لحاظ سے کسی ترقی یافتہ یورپی شہر کی مانند بنانے کا سبز باغ دکھاتے ہیں۔ کئی علاقوں میں لوگوں کو پیسے دے کر ووٹ کی قسمیں لی جاتیں ہیں۔ سیاست دانوں کا یہ بندر تماشا انتخاب کے دن تک جاری رہتا ہے اور پھر امیدوار کی جیت کی صورت میں یہ ووٹرز پھر سے بیگانے عوام بن جاتے ہیں۔ یہ عوام جنہیں ان امیدواروں کی زبانیں اپنے بھائی کہتے نہ تھکتیں تھیں انتخاب کے دوسرے دن ووٹرز جب خوشی خوشی مبارکباد دینے کے لیے ان کے ڈیروں کے گیٹ کے باہر گھنٹوں سے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں اور جیتا امیدوار چلتی گاڑی میں بیٹھا ان کی طرف ہاتھ سے بائے بائے کرتا ان کے قریب سے گزر جاتا ہے۔ چند منٹ ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کی مبارکباد تک وصول کرنا گوارا نہیں کرتا۔ بعد میں توں کون اور میں کون۔

ہم یہ سب کچھ ہوتا ہوا قیام پاکستان کے بعد کے پہلے انتخابات سے ہی دیکھ رہے ہیں۔ ڈھیٹ پن، دیدہ دلیری ان سیاست دانوں کی کہ ہر بار ڈھیروں وعدے کرتے ہیں اور اقتدار پانے پر آنکھیں ماتھے پر رکھ کر صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز رکھتے ہیں، بے وقوفی، معصومیت اور تحمل ہم عوام کا کہ ہر بار آسانی سے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کی ماضی کی کوتاہیاں بھول کر پھر نئے سرے سے ان سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک جتنی بھی پارٹیاں برسر اقتدار آئیں ہم کس کے کارناموں سے آگاہ نہیں۔ کتابیں بھری پڑی ہیں ان کے سیاہ کارناموں سے لیکن ہم نسیان کے مرض کا بھی شکار ہیں جو انہیں دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ آج ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ذرا اپنے گھروں سے باہر تو نکل کر دیکھیے، اپنے اردگرد دو نمبری کا گھیراؤ آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے لے کر ناپ تول میں کمی سے بھی واسطہ پڑا ہوگا۔ بچوں کو پڑھانا ہے تو پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کریں یا پھر انہیں ان لوئر کلاس اسکولوں میں بھیجیں جہاں تعلیم و تربیت نام کو بھی موجود نہیں صرف خانہ پری ہے۔ یہی حال اسپتالوں کا ہے کہ پرائیویٹ اسپتال پہنچ سے دور اور سرکاری اسپتالوں میں صرف دھکے ہی دھکے۔ تھانے کچہریوں میں چلے جائیں وہاں عدل و انصاف کا فلسفہ اپنے نام کی حد تک بھی نہیں ملے گا۔ آپ چاہے جتنا مرضی ظلم کا شکار ہیں کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ اہلکاروں کی جیبوں میں پیسے ڈالتے جائیں گے تو آپ کی بات سنی جائے گی۔ اگر رشوت کے نام پر دینے کے لیے آپ کے پاس بھاری رقم نہیں تو چپ کر کے اپنے گھروں میں ہی بیٹھیں۔ مختصر یہ کہ آپ ملک کے جس مرضی سرکاری ادارے میں چلے جائیں تو جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی لغت نظر آئے گی۔ آپ کا حق پر ہونا بے معنی ہے جب تک آپ عملے کو قائد اعظم کی تصویر والے کاغذ نہ تھمائیں گے۔ آپ کو ان کی نظروں میں اپنے مسئلے سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آئے گی۔

ذرا نہیں پورا سوچیے! کہ ایک اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک جسے پانے کا مقصد اسلام کا عملی نفاذ تھا اس قدر ترقی پذیر کیوں ہو گیا؟ اس کا قانون قرآن کے بجائے جنگل کا قانون کیوں بن گیا؟ دنیا میں پاکستانیوں کی شہرت مشکوک بن کر رہ گئی؟۔ اگر اس وجہ کا تجزیہ کیا جائے تو ہماری سب سے بڑی غلطی پاکستان کے اقتدار کے لیے غلط لوگوں کا انتخاب ہے جو آ کر صرف اپنی اقتدار کی ہوس پوری کرتے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اپنے ذاتی مخالفوں کو پسپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوبارہ آنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ملک سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اب ایک بار پھر انتخابات کا موسم آ چکا ہے۔ ہمارے یہ چاپلوس سیاستدان ہمیں شیشے میں اتارنے اور سبز باغ دکھانے اپنے گھروں سے نکل چکے ہیں۔ اپنی میٹھی زبانوں سے ہمیں بہن بھائی کہتے اور اپنے منشور سناتے تھکتے نہیں۔ اس ملک میں ہم عوام کے پاس واحد طاقت ووٹ ہے۔ اب یہ فیصلہ ہم کو کرنا ہے کہ ہمیں اس طاقت کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ انہی پرانے گھسے پٹے منافقوں کا انتخاب کرنا ہے یا پھر میرٹ کی بنا پر ووٹ دینا ہے۔ ویسے۔۔۔ پاکستان میں زیادہ تر عوام ووٹ کے معاملے میں اپنی عقل کے استعمال کے بجائے یہ دیکھتی ہے کہ میرے فلاں نے مجھے فلاں بندے کو ووٹ دینے کو کہا، فلاں بندہ ہماری برادری کا ہے، ہمارے چودھری یا سرپنج نے فلاں بندے کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا ہمیں فلاں کو ہی ووٹ دینا ہے۔

بھئی اللہ کے بندو! جس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ڈالے گئے ووٹ کی جواب دہی کے لیے کہ ایک اہم اسلامی ریاست کو چلانے کے لیے کس کو منتخب کیا؟ اس میں یہ قابلیت تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق اسلامی ریاست کو چلا سکتا؟ کیا اس میں اتنی دینی بصیرت و عمل تھا کہ وہ دین کے بتائے گئے تقاضوں کے مطابق ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرتا اور حلال حرام کی تمیز رکھتا؟ (ویسے سوچنا ہم نے اللہ کے اس سوال کا کیا جواب تیار کرنا ہے) بالکل اسی طرح الیکشن بوتھ میں بھی پرچی پر مہر لگاتے وقت ہم اکیلے ہوتے ہیں۔ جب ربّ کا حکم ہے کہ گواہی صرف اللہ کے لیے دینی ہے، اقتدار کی امانت ان کے اہل کے سپرد کرو، امانت میں خیانت نہ کرو۔ ووٹ بھی ایک گواہی اور امانت ہے تو پھر اسے بھی اپنی برادری، چودھری، والدین، دھڑے بازی، سب کے بجائے اللہ کی خوشی کے لیے نیک صالح، باعمل، امانت دار اور قابل لوگوں کے انتخاب میں استعمال کر کے اپنے عقلمند ہونے کا ثبوت دیں ورنہ اگلے پانچ سال پھر کرپشن، مہنگائی، بیروزگاری اور کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔