شفاف انتخابات

615

عدالت عظمیٰ کے حکم پر قومی انتخابات کی تاریخ طے ہوگئی۔ اس پر ابہام ختم ہوگیا۔ لیکن یہ ابہام تھا کیوں… جس وجہ سے انتخابات کے انعقاد پر ابہام تھا وہ تو اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اور وہ وجہ ہے شفاف انتخابات کا انعقاد۔ فیصلہ ساز اور مقتدر حلقے انتخابات پر تو تیار ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں گے یا نہیں۔ بہت سے لوگ پری پول دھاندلی کی بات کرنے لگے ہیں لیکن پاکستان میں انتخابات میں پری پول یا پولنگ کے دن دھاندلی ہو یا نہیں، انہیں شفاف کوئی نہیں مانتا۔ ہارنے والے دھاندلی دھاندلی کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ہیں اور جیتنے والے جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ایوانوں میں جا بیٹھتے ہیں اور پھر ان کے مخالف جلسے جلوس، دھرنے اور مارچ کرتے ہیں۔ یہ شفاف انتخابات ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک سیاسی تجزیہ نگار دوست کہا کرتے تھے کہ انتخابات اتنے شفاف ہوتے ہیں کہ ہمیں تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی مستقبل کے وزیراعظم کی تصویر بالکل شفاف نظر آنے لگتی ہے۔ یہ بات ۱۹۸۸ء، ۹۰، ۹۳، ۹۶ تمام انتخابات کے بارے میں کہی گئی اور سب میں پہلے سے صاف نظر آنے والے چہرے ہی برسراقتدار آئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ۹۶ کے بعد انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوا اور ایسا اب بھی ہونے جارہا ہے۔ ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے اس تجزیے کے مطابق سب کے سب مکمل شفاف رہے۔ ان انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھانے والوں کو اپنا انجام بھی بالکل شفاف نظر آتا تھا اس لیے کسی پبلک ریلیشنز آفیسر کے حکم کے بغیر سب انتخابات کے بعد انہیں شفاف ہی قرار دیتے ہیں۔ ہلکی پھلکی چھوٹی موٹی حق بات کو خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں۔

ہم یہاں گزشتہ دو انتخابات اور مجوزہ شفاف انتخابات کا موازنہ کریں گے۔ جب ۲۰۱۳ کے انتخابات ہونے جارہے تھے تو بعینہٖ یہی حالات تھے اس وقت کے لاڈلے میاں نواز شریف تھے ان کے لیے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے۔ ان کی رفتار الیکشن کمیشن سے اتنی زیادہ تھی کہ انہوں نے رات ۱۱ بجے ہی اپنی کامیابی کا اعلان کردیا تھا اور قوم کو مبارکباد دے دی تھی۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی اور پیپلز پارٹی نے ہنگامہ بھی کیا لیکن وہ تازہ تازہ باری لے کے نکلے تھے اس لیے زیادہ شور نہیں مچایا۔ البتہ اگلے لاڈلے عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا جو بالکل بجا تھا لوگ تبدیلی ہی چاہتے ہیں اس لیے ۲۰۱۸ میں نیا لاڈلا متعارف اور مسلط کرادیا تھا۔ اب تک کے شفاف انتخابات میں میڈیا اور دوسرے ذرائع سے جن میں عدالتیں، تحقیقاتی ادارے اور غیر ملکی میڈیا شامل ہیں۔ ایسا ماحول پیدا کیا جاتا تھا کہ لوگ اس پارٹی اور رہنما کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرلیتے تھے لیکن چونکہ اب تیسرا چہرہ متعارف کرایا جارہا تھا اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد پچھلے دونوں حکمرانوں سے مایوس ہورہی تھی اس لیے لوگ نئے لیڈر کی تلاش میں تھے اور اس تگ و دو میں ان کا رابطہ جماعت اسلامی سے بھی بہتر ہوا تھا۔ خصوصاً کراچی میں حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے تھے نئی پارٹی کو پنجاب میں تو اچھی طرح لانچ کیا جاچکا تھا لیکن کراچی میں کمی رہ گئی تھی اس مقصد کے لیے ایم کیو ایم کو میدان سے ہٹا بھی دیا گیا تھا تاہم جماعت اسلامی کے امیدواروں اور کارکنوں نے زبردست مہم چلائی اور الیکشن والے دن حیران کن حد تک تماشے سامنے آئے۔ انتخابات کے آزادانہ منصفانہ اور شفاف ہونے کے نعرے اس وقت بھی لگائے گئے تھے جیتنے والے اسے جمہوریت کہتے رہے اور ہارنے والے دھاندلی اور دو دو باریاں لینے والے مطمئن تھے کہ ایک بار پھر باری ہمیں ہی ملے گی۔ اور ایسا ہو بھی گیا۔ لیکن ۲۰۱۸ میں وہ کچھ ہوا جس کی توقع کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ انتخابی نتائج دینے کے لیے ایک نظام ریزلٹ ٹرانسفر سسٹم وضع کہا گیا کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں تسلیم وہی ہوں گے جو آر ٹی ایس سے جاری ہوں گے۔ بار بار تجربہ کرنے کے باوجود عین الیکشن کے دن یہ نظام اس طرح بیٹھا کہ اعداد و شمار کا گھپلا کرنے والے بھی حیران رہ گئے۔ پولنگ کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیدواروں کے ووٹ ۲۴ ہزار ۳۶ ہزار اور ۲۰ ہزار میں تھے اور قریب ترین مخالف چار ہزار، ۱۱ ہزار اور ۸ ہزار پر تھے۔ آر ٹی ایس بیٹھا اور بیٹھ ہی گیا گلگت بلتستان دور دراز کے نتائج آگئے اگلی صبح کے قریب آر ٹی ایس اٹھا اور ساڑھے چار ہزار والا ۵۶ ہزار پر پہنچا ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱ ہزار والا بھی پچاس ہزار سے اوپر پہنچ گیا اور دس سے پندرہ ہزار آگے والا اپنی جگہ موجود رہا۔ ہارنے والے جیت گئے جیتنے والے ہار گئے۔ اور ایک پی آر او کا حکم آیا کہ چھے ماہ تک نئی حکومت پر تنقید نہ کی جائے۔ ایسا بھی ہوگیا اور یوں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ساڑھے تین سال گزر گئے اور پھر وہی ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کو تبدیل کا خیال آیا اور وہی پرانے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔ اب عمران خان کو سزا ہوگئی اور عام انتخابات جو ۸ فروری کو ہونے والے ہیں ان میں شفاف طور پر نواز شریف کو اپنا چہرہ بطور حکمران نظر آرہا ہے۔ لیکن ابھی ۸ فروری نہیں آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو بساط وہ بچھاتی ہے اس کے مہروں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ اسی لیے اہم ترین مہرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ۔

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

اب ۸ فروری کو دیکھا جائے گا یا سامنے آئے گا کہ شاطر نے کیا کھچڑی پکا رکھی ہے۔ وہ تو جو نتیجہ بھی برآمد کریں گے اسے شفاف ہی قرار دیں گے۔