لٹیروں کے راج کو بدلو

995

پاکستان میں جوں جوں 8فروری کا دن قریب آتا جارہا ہے۔ سیاسی میدان گرم سے گرم ہوتا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا نہ دینے سے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم اب تک زور نہیں پکڑ سکی ہے۔ عمران خان کی جانب سے اپنے امیدواروں کو مہم میں تیزی پیدا کرنے کے لیے رابطہ عوام تیز کرنے پر زور دیا گیا جس کے باعث کچھ حرکت تو پیدا ہوئی ہے لیکن گرم جوشی کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے چاہنے والوں کو انتخابی عمل سے دور رہنے اور پتنگ کو ووٹ نہ دینے کا بیان دے کر ایم کیو ایم بہادر آباد کے ارمانوں پر اُوس ڈال دی ہے۔ پچھلے انتخابات میں وہ بمشکل قومی اسمبلی کی چار نشستیں حاصل کر پائے تھے اور اب وہ چار نشستیں بھی بچانا مشکل ہوگیا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری لاہور کے حلقہ این اے127سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں اور وہ پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب سے نشستیں حاصل کرنے کے لیے بڑا زور مار رہے ہیں۔ بلاول آزاد امیدواروں کے ذریعے پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ووٹروں کو ورغلا رہے ہیں کہ وہ تیر کو ووٹ دے کر اپنے مشترکہ حریف شیر کو شکست دیں۔ مسلم لیگ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں کے مشترکہ حریف ہے تحریک انصاف کی حمایت سے پیپلز پارٹی باآسانی مسلم لیگ کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے لیکن تحریک انصاف نے بلاول کے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے بلاول کی بچکانہ سوچ قرار دیا ہے اور اپنے ووٹر کو کسی بھی قیمت پر پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دینے اور تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونے والے ارکان کی پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کیا اور اسے بلاول کی جانب سے اراکان اسمبلی کی خریدوفروخت قرار دیا ہے۔

پنجاب پاکستان کی سیاست کا دل ہے اور جس پارٹی نے بھی پنجاب سے زیادہ نشستیں حاصل کر لی مرکز میں اس پارٹی کی ہی حکومت بنتی ہے۔ پنجاب کی سیاست برادری ازم اور جاگیرداروں کے نرغوں میں ہے اور گائوں کا چودھری جس پارٹی کی حمایت کر ے گائوں کی اکثریت اسی پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ کل تک پنجاب میں عمران خان کا توتی بولتا تھا لیکن اب حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ ہوا کا رخ بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور پنجاب ایک بار پھر نواز شریف کے گرد جمع ہوگیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی نواز شریف کی پارٹی پر ہاتھ رکھا گیا ہے۔ جس کی دیکھا دیکھی لوگ مسلم لیگ ن کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین تخت لاہور کا شور مچا کر ان اندیشوں کو اور زیادہ پختہ کرر رہے ہیں۔ 8فروری کے انتخابات میں اگر مسلم لیگ ن کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو نواز شریف چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں گے۔ پاکستان کا وزیراعظم نوازشریف بنے، بلاول یا پھر تحریک انصاف کا کوئی بھی فرد اس سے پاکستان کی عوام کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آج پاکستان کا 80ہزارارب روپے کا قرضہ ان ہی جماعتوں کی مرہون منت ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں13ہزار کھرب کا قرضہ حاصل کیا، مسلم لیگ ن نے 11ہزار کھرب کا قرضہ اور پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں 7ہزار کھرب کا قرضہ حاصل کیا تھا اور یہ قرضہ پوری قوم کے لیے ایک عذاب بن چکا ہے اور آنے والی ہماری نسلیں یہ قرضہ چکاتی رہے گی اور یہ ختم نہیں ہوسکے گا۔

آئی ایم ایف کے اشاروں پر ان قرضوں کی وصولیابی کے لیے نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں 1108فی صد اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے مسلسل اضافوں نے تو عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور اب آئی ایم ایف کے اشاروں پر ہی ہر ماہ اٹھارہ ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، ٹیکسٹائل، لیدر، چینی، درآمدی مشینری پر بھی مزید ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں ہرسال پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی غربت بے روزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے اپنی بیوی سمیت تین بچوں کو قتل کر کے خود کو پھانسی کا پھندا لگا لیا۔ قرضوں، مالی پریشانی اور مشکلات کی وجہ سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ موت کو گلے لگانے والے کی ہلاکت کا ذمے دار یہ ہی حکمران طبقہ ہے جس نے غریب کو اور زیادہ غریب کردیا ہے۔ ایک جانب حکمرانوں کی عیاشیاں ہیں جو کہ ختم ہونے کو نہیں آرہی ہیں اور دوسری جانب غریب اور مفلوک الحال عوام ہیں کہ دووقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔

ان حالات میں پاکستان میں ہونے والے قومی انتخابات غریب عوام کے لیے دھوکا اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ لوٹ مار اور کرپشن کے ذریعے حاصل کی گئی دولت کو لیکر یہ لٹیرے ایک بار پھر انتخابی دنگل میں کود ے ہیں اور عوام کو سنہرے خواب دیکھا کر انہیں بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ چوہے اور بلی کا کھیل آ ج بھی جاری ہے۔ ملک میں چاروں طرف تیرا چور مردہ باد اور میرا چور زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ان حالات میں 8فروری کو پاکستان کے 12کروڑ 85لاکھ 85ہزار 760 ووٹر اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان ہی نہیں بلکہ اپنی قسمت کا بھی فیصلہ کریں گے۔ پاکستان کا نیا وزیراعظم لاہور سے آئے یا لاڑکانہ سے یا پھر بنی گالہ سے پاکستان کی غریب عوام کے حالات تبدیل ہونے والے نہیں ہیں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ عوام جب تک اپنی طاقت کو نہیں پہچانے گے اور ان لٹروں کے چنگل میں رہے گے تو یہ لٹیرے اسی طرح قوم اور ملک پر مسلط رہیں گے۔ چہروں کے بجائے جب تک اس ملک کا فرسودہ نظام تبدیل نہیں ہوگا عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکے گے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ پندرہ برسوں سے سندھ بلا شرکت غیرے اقتدار پرقابض ہے لیکن سندھ کے عوام کی حالت زار زبان سے بیان نہیں کی جاسکتی کشمور سے لیکر کراچی تک سندھ کا باشندہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ تعلیم صحت کا بجٹ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر روزگار کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ میرٹ کا قتل عام کیا جارہا ہے اور نوکریاں فروخت کی رہی ہیں۔ اسکولوں میں وڈیروں کی اوطاقیں قائم ہیں، اسپتال ویران ہیں اغواء برائے تاوان کے واقعات عام ہیں اور پورے سندھ میں ڈاکو راج قائم ہے اور بدامنی ہے۔ ایسے حالات میں ایک بریانی کی پلیٹ پر غریب سندھیوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ پاکستان کے عوام کے لیے موقع ہے کہ وہ تمام تر لسانی، صوبائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ہوکر نیک دیانت اور مخلص لوگوں کوووٹ دے کر اسمبلی کے لیے منتخب کریں ورنہ وہ اسی طرح آئندہ بھی مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، غربت اور افلاس کی دلدل میں دھنسے رہے گے اور ان کی آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔