سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ

827

8 فروری کے انتخابات اب بظاہر بہت دور کی بات نہیں، جلسے جلوس سے سیاسی ماحول کچھ بنتا ہوا نظر آنا شروع ہو گیا ہے، کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں مستقبل میں ملکی حالات بظاہر تبدیل ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن اس تمام صورت حال کے تناظر میں غور طلب بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک طویل عرصے سے الیکشن میں حصہ لیتی آئی ہے، چاہے وہ بلدیاتی سطح کے الیکشن ہوں یا صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی یا سینیٹ کے الیکشن ہوں اور اس میں وہ کہیں کہیں کامیابیاں بھی حاصل کرتی رہی ہے لیکن وہ ان معنوں میں وسیع پیمانے پر کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ اپنی حکومت قائم کر کے ایک اسٹیٹ ان اصولوں پر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ جس کے نتیجے میں وہ پورے دین کو عمل میں لاکر اپنے انقلابی منشور سے، اپنی با صلاحیت ٹیم اور ربّ کے بھروسے پر، اپنے انتظامی تجربات، اپنی صلح پسندی، اپنے باشندوں کے فلاح و بہبود سے، اپنی نیک سیرت قیادت، اپنی صالح داخلی سیاسی حکمت عملی سے ساری دنیا کے سامنے یہ بات ثابت کر دے کہ ہمارا دین درحقیقت عوام کی ہر ضرورت کا ضامن ہے نہ صرف معاش اور بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بلکہ بنیادی ضرورتوں تک با آسانی رسائی کا بھی ضامن ہے اور اسی دین کی پیروی میں نوع انسانی کی بقا بھی ہے اور بھلائی بھی ہے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بحیثیت صوبائی وزیر خزانہ، صوبہ کے پی کے میں ایک ایکٹ کے تحت سودی بینکوں کی نئی برانچیں کھولنے پر پابندی لگائی تھی، 26 ہزار لوگوں نے سودی بینکاری چھوڑ کر خیبر بینک میں اسلامی بینکاری کی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تین سال میں کے پی کے قرض فری صوبہ بن گیا (جو بعد میں پی ٹی آئی کے دور میں دوبارہ قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا)، تمام غیر ترقیاتی اخراجات اور بڑے بڑے فنکشن کے ہوٹلوں میں انعقاد پر پابندی لگائی، کرپشن کو ختم کیا، اس بچت سے اتنا پیسہ ملا کہ میٹرک تک تمام طلبہ کو مفت کتابیں مہیا کیں۔ اسی طرح بلدیاتی سطح پر جب جماعت اسلامی کو کراچی مئیر کے اختیارات ملے تو عبدالستار افغانی نے بحیثیت مئیر کراچی سادگی کی ایسی مثال قائم کی کہ مئیر بننے کے بعد بھی اپنی رہائش اپنے دو کمروں کے فلیٹ میں ہی رکھی اور یہیں سے ان کا جنازہ بھی نکلا۔ نعمت اللہ خان نے بطور مئیر کراچی شہر کا نقشہ بدل دیا۔

اگر پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کی بات کی جائے تو سادگی اپنانے اور وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کے حوالے سے سراج الحق نے جو مثالیں قائم کی ہیں اس حوالے سے دور دور تک ان کا کوئی ہمسر ہی نہیں، اس لیے

بلا خوف و تردد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی کا منشور اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت اسلامی کو نہ صرف پاکستان کے حقیقی مسائل کا علم ہے بلکہ وہ زمینی حقائق سے بھی واقف ہے اس لیے اس کے منشور میں جہاں معاشی مسائل کا قابل عمل حل موجود ہے وہیں خارجی معاملات میں کوئی جذباتی انداز اختیار کیے بغیر اپنی عزت نفس اور دوسرے ممالک اور عالمی طاقتوں کی اہمیت اور پڑوسیوں سے اچھے روابط اور اتحاد بین المسلمین کو بڑے واضح انداز میں پیش نظر رکھا گیا ہے۔(مئی 2023 کے ماہنامہ ترجمان القران tarjumanulquran.org کے اشارات میں جماعت اسلامی کے منشور کی تفصیلات موجود ہیں)

پاکستان میں اب تک بشمول مارشل لا اور فوجی حکمرانوں کے مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے دور حکمرانی آچکے ہیں، پروپیگنڈا اپنی جگہ کچھ دیر کے لیے کسی کی کارکردگی پر پردہ ڈال سکتا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ زیادہ دیر تک اصل صورتحال پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آخر الذکر یہ تینوں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ملبہ ڈال کر اب مزید بچاؤ کا سامان نہیں کرسکتیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا میں درجہ بندی کی بات ہو، کرپشن کی بات ہو یا بارہ کروڑ انسانوں کا خط غربت سے نیچے زندگی گزارنا، آپس کی رسہ کشی ہو یا اداراوں سے ٹکراؤ، سب سے بڑھ کر جو ملک میں بے برکتی ہے کہ گندم، چاول، گنے کی پیداوار میں دنیا میں شروع کے 6 تا 8 سب سے زیادہ پیدا کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں ہماری پیداوار ہو، دیگر اجناس کی پیداوار میں بھی قابل ذکر ہوں، زرعی ملک ہو اور لوگ فاقوں پر مجبور ہوں؟ ہمارے دین کا نام اسلام جو سَلَمَ سے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی محفوظ، امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں، مشہور حدیث ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ اس کے بھی عربی متن میں لفظ’’سَلَمَ‘‘ بطور معنی ’’محفوظ‘‘ کے آیا ہے اور ہمارے یہاں نہ کوئی سلامت ہے اور نہ عزتیں محفوظ، ہمارا آدھا ملک ہم سے علٰیحدہ ہو گیا ہمیں اس کا کتنا غم ہے؟، اس کے مداوے کی کوششوں کی بات تو ایک طرف، بقیہ پاکستان کے ٹوٹنے اور توڑنے کی سازشیں اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، سب سے بڑھ کر شعائر اللہ کا مذاق اور احکام الٰہی کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں، سود، عریانی، فحاشی، کمر توڑ مہنگائی، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری اور یہ سب ہمارے سامنے علی الاعلان ہو رہا ہے لیکن سب دم بخود ہیں، یہی حقیقی صورتحال ہے۔ اگر اب بھی بحیثیت قوم ہم نے حکمرانوں کی کارکردگی کو اپنی نجی گفتگو میں عنوان نہیں بنایا اور ووٹ مانگنے کے لیے آنے والوں سے ان کے وعدوں اور کارکردگی کے حوالے سے جواب دہی نہ طلب کی تو الیکشن کو سلیکشن میں بدلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔