ایران دور ہے کہ قریب؟

786

یہ ایک قدیم پارک تھا۔ جس کے ماتھے پر 1936ء کی تختی لگی تھی۔ قدیم پیپل کے درخت جن کی ڈاڑھیاں دور دور تک جاتی ہوئی زمین میں پیوست تھیں، اس پارک کو کوئی سو سال ہونے ہی والے تھے کہ پچھلے سال 2022ء اگست میں اس کا نام اولڈ کلفٹن گارڈن سے تبدیل کرکے پیارے رسولؐ کے فارس سے تعلق رکھنے والے صحابہ سلمانؓ فارسی کے نام پر سلمان فارسی پارک رکھ دیا گیا۔ پیپل کے قدیم درختوں پر بسنے والے دیسی پردیسی پرندوں کو بھی اس سے فرق پڑا ہوگا کہ پارک کا نام بدل دیا گیا ہے۔ یعنی اب ان کی رہائش کو ایک اسلامی شناخت مل گئی ہے۔ اس کی وجہ ایران کے قونصل خانے کی قرب و جوار میں موجودگی تھی۔ لہٰذا اس اقدام کو پاک ایران دوستی اور پچھتر سال باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک مبارک قدم قرار دیا گیا تھا۔ چند ماہ قبل یعنی 2023ء اگست میں اس رشتے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اولڈ کلفٹن کی تاریخی سڑک کا نام شاہراہ امام خمینی رکھ دیا گیا۔ اس تقریب کے افتتاح کے موقع پر ایرانی وزیر خارجہ نے شکریہ ادا کیا اور عزم ظاہر کیا کہ مستقبل میں پاک ایران تعلقات میں مزید وسعت اور گرم جوشی آئے گی۔ لیکن آج اسی ہفتے کی بات ہے کہ اس تعلق کی گرم جوشی میں اضافے کے بجائے گرما گرمی ہوگئی اور گرما گرمی بھی معمولی نہیں بلکہ میزائل اور ڈرونز کی مارا ماری ہوئی ہے۔ یہ تشویش کا باعث ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اگرچہ ماضی میں ایران اور پاکستان کی سرحد پر عسکریت پسندوں کو لے کر ایران کے سرحدی گارڈ پاکستان کی سرحد کے اندر تک آئے تھے لیکن وہ جلد ہی واپس چلے جاتے تھے۔ ایک دو بار پاکستان کی بارڈر فورسز نے انہیں گرفتار بھی کیا اور بعد میں کئی ہفتوں کی سفارتی بات چیت کے بعد انہیں رہا کردیا۔

ماضی کی کھٹ پٹ اور موجودہ ایرانی حملے میں ایک فرق بہرحال ہے کہ ایران کے پاسداران انقلاب سے منسلک میڈیا نے اس کارروائی کا فخریہ اظہار کیا۔ یعنی ایران کے اخبار تہران ٹائمز نے سرخی لگائی کہ ’’ایران ہٹ بیک‘‘ یعنی ایران نے پلٹ کر حملہ کیا اور اپنے جرنیلوں کی شہادت اور ان کی برسی پر 100 کے قریب ایرانی شہریوں کی شہادت کا بدلہ لے لیا۔ لیکن یہ بدلہ اس نے اپنے ہی ہمسائیوں شام، عراق اور پاکستان پر میزائل داغ کر لیا۔ کیونکہ بقول ایران کے وہاں ہی سے ایران پر حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ شام پر داغے گئے میزائل کی رینج اگرچہ بہت زیادہ تھی لیکن وہ اس کے حقیقی دشمن اسرائیل تک پہنچنے سے معذور تھا۔ بہرحال ایران نے اپنے تینوں ہمسایہ مسلمان ممالک پر میزائل داغ کر اپنے اصل دشمنوں (امریکا اور اسرائیل) سے بدلہ لینے کا دعویٰ کردیا اور اس طرح اپنے شہریوں کو کچھ کرکے دکھا دیا۔ لیکن یہ عمل امت مسلمہ کی اکثریت نے ناپسند کیا۔ امید ہے کہ یہ ایرانی اور پاکستانی حملے کسی بھی مزید محاذ آرائی کا باعث نہیں بنیں گے۔ دہشت گردی کے جتنے بھی گروہ اور تنظیمیں ہیں اور جو پاکستان میں بیٹھ کر ایران اور ایران میں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں ان سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کو بات چیت کرنی چاہیے۔ اس ساری صورت حال میں اطمینان بخش بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی سرحدوں کے اندر کارروائی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت جاری ہے، دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کی ضروریات کی روزمرہ کی اشیا ایک دوسرے تک پہنچانے میں سنجیدہ نہیں۔ ابھی یہ کالم مکمل نہیں ہوا تھا کہ خبر آئی جو موجودہ حالات میں خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوئی کہ پاکستان اور ایران نے سفیروں کی دوبارہ تعیناتی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یوں پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔

سفارت کاری کا معاملہ بھی خوب ہے۔ مختار مسعود نے لوح ایام، ان ایام کی یاد میں تحریر کی جو انہوں نے ایران میں سفارت کاری کرتے گزارے۔ کہتے ہیں ’’1978ء کا ایک گرم دن ہے، گرمی سے تنگ آکر ٹیرس پر ٹہل رہا ہوں، انتظامیہ کارکن ہوں اور پہلی صف میں وہاں کھڑا ہوں جہاں سورج ہمیشہ سوا نیزے پر ہوتا ہے۔ ٹیرس پر ٹہلتے نظریں بار بار مارگلہ کی طرف اُٹھتی ہیں جیسے اس عمل سے آنکھوں کو ٹھنڈک مل جائے گی۔ یکایک ہوا کا ایک خنک اور خوشگوار جھونکا سلسلہ کوہ البرز سے چلا اور میری تلاش میں آنکلا‘‘۔ فون پر انہیں ایران تعیناتی کی خبر دی جاتی ہے تو تصور نے چند لمحوں میں موسم اور منظر بدل کر رکھ دیا۔ مارگلہ، مری اور قراقرم کی جگہ البرز، دمامند اور ذاگروس، راوی چناب اور جہلم کی جگہ کرج، سفید اور زندہ رود، دریائے سندھ کی جگہ نہر کارون، چولستان اور تھرپارکر کی جگہ دشت ِ کادیر اور دشت لوط، موہنجوداڑو ہڑپہ اور ٹیکسلا کی جگہ نقش رستم، طاق بوستان اور تخت جمشید، مہمند محسود اور وزیری کی جگہ کرد، قسقائی اور بختیاری، آم اور کینو کی جگہ خادیار اور زعفران، مونگ پھلی کی جگہ پستہ، اکھاڑے کی جگہ زور خانہ، ضلع کی جگہ شہرستان، کمشنری کی جگہ

اوستان، جمہوریہ اسلامی کی جگہ بادشاہت اور وہ بھی پہلوی اور آریا مہری۔ ایران کے بارے میں کافی معلومات اُن کے اس پیراگراف سے مل جاتی ہیں لیکن یہ کچھ آئوٹ ڈیٹ بھی ہیں خاص طور سے بادشاہت وہ بھی پہلوی اور آریا مہری۔ اب تو خمینی کا آیت اللہ کا دور ہے۔ اس کتاب میں شہنشایت کو انقلاب بدلتے دیکھنے کا ذکر ہے کہتے ہیں شہنشاہ دونا شاہ پہلوی آریا مہری سلطنت سے اپنے سلسلے کو جوڑنے کے لیے ایک دن وادی پاسارگار میں سائرس جسے تاریخ میں سائرس دی گریٹ سے یاد کیا جاتا ہے کی خدمت گاہ میں ہیلی کاپٹر سے بڑی سج دھج سے اترے اور گہنہ قبر اور ٹی وی کیمرے کی طرف منہ کرکے یک طرفہ گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ اے عظیم الشان بادشاہ، ہم آپ کی آرام گاہ پر صرف یہ کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ اب آپ اطمینان سے سو سکتے ہیں کیونکہ ہم بیدار ہوچکے ہیں‘‘۔ ابھی ان الفاظ کی گونج باقی تھی کہ ایران بیدار ہوگیا۔ اس بیداری کے ساتھ ہی پہلوی خاندان کی خود ساختہ ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت دھڑام سے زمیں بوس ہوگئی۔ شہنشاہ تو ہاتھ نہ لگ سکے کہ وہ تو صبح وقت ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے، ان کے والد کی قبر کے پاس گئے پر ہاتھ سے لکھی عبارت آویزاں کردی گئی۔

’’مسلمان بہن بھائیوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ شاہ خائن کی قبر پر تھوکنے سے پرہیز کریں‘‘۔ لوگ اس نوٹس کو پڑھتے اور سرہانے پہنچ کر سارا غصہ اور بلغم سنگ لحد پر نکال دیتے۔ یہ زیادہ پرانی نہیں صرف چالیس پینتالیس سالہ پرانی تاریخ ہے۔ ایران سے ہماری جتنے تاریخی تہذیبی اور روایتی قریبی تعلقات ہیں اس لحاظ سے پارک اور سڑک کے نام رکھنا کافی نہیں بلکہ وہاں کے حالات کا گہرا مطالعہ سفارت کاروں کے لیے ہی نہیں عام لوگوں کے لیے بھی اہم ہے۔